Pages

Wednesday 28 March 2012

ہرمحدث فقیہہ نہیں ہوتا

امام اعمش مشہور محدث ہیں۔انہوں نے امام ابوحنیفہ سے مسائل پوچھے۔ امام ابوحنیفہ نے ان کاجواب دیا۔ امام اعمش نے پوچھاکہ یہ مسائل تم نے کہاں سے اخذ کئے ۔انہوں نے بتایاکہ ہم نے یہ مسائل آپ کی بیان کردہ فلاں فلاں روایتوں سے اخذ اورمستنبط کیاہے۔ اس پر امام اعمش نے فرمایا اے گروہ فقہاء تم ڈاکٹر طبیب اورحکیم اورہم پنساری، اورکیمسٹ ہیں۔ 

امام اعمش کے الفاظ ہیں۔ یامعشرالفقہاء انتم الاطباء ونحن الصیادلۃ

اورپوری روایت ہے

اخبرنا حسن بن علی الجوہری، انامحمد بن عباس الخزاز،نا ابوبکر عبداللہ بن محمد بن زیاد النیشاپوری ،قال سمعت اباابراہیم المزنی،قال: اناعلی بن معبد،ناعبیداللہ بن عمرو،قال:کناعندالاعمش وھویسال اباحنیفۃ عن مسائل ویجیبہ ابوحنیفۃ فیقول لہ الاعمش من این لک ھذا، فیقول انت حدثتنا عن ابراہیم بکذا وحدثتنا، بکذا وحدثتنا عن الشعبی بکذا، قال :فکان الاعمش عندذلک یقول،یامعشرالفقہاء انتم الاطباء ونحن الصیادلۃ ۔(شرف اصحاب الحدیث ونصیحۃ اہل الحدیث ص261)

پوری روایت سند سے اس لئے ذکر کی گئی ہے کہ جن کوکچھ شک ہے وہ اس سند کی تحقیق کرلیں۔ہماری تحقیق کے مطابق
سند بے غبار ہے اورنصیحۃ اہل الحدیث کے محقق نے بھی سند کو صحیح کہاہے۔

امام اعمش ان مختصرجملوں میں دونوں گروہ کی امتیازی خصوصیات کوبیان کردیاہے۔

پنساری یاکیمسٹ دواکے نام جانتاہے لیکن کون سی دواکن بیماریوں میں استعمال کی جائے گی۔بیماری کیاہے ۔بیماری کی وجہ کیاہے وہ کیوں کردور ہوگی اس سے وہ بے خبر ہوتاہے۔ اس کاکام صرف دواؤں کی شناخت کرنا اورڈاکٹر کے نسخہ کے مطابق مریض کو دوادے دیناہے۔

جب کہ ڈاکٹر اورحکیم نہ صرف دواکی خصوصیات جانتاہے بلکہ اس کی تاثیر اورافادیت سے واقف ہونے کے ساتھ مرض اورسبب مرض کابھی علم رکھتاہے۔

یہی فرق محدثین کرام اورفقہاء میں ہے کہ حضرات محدثین کرام حدیث کے الفاظ ،متون سے گہری واقفیت رکھتے ہیں اس میں معمولی ردوبدل اورکمی بیشی کی پوری خبر رکھتے ہیں۔سند کی تبدیلیوں اورتحویلات سے واقف ہوتے ہیں۔ لیکن متن سے کن شرعی مسائل کی جانب رہنمائی مل رہی ہے۔ شارع کا مقصود کیاہے۔حدیث میں اصل علت کیابیان کی گئی ہے اوراس کو کیوں کر دوسرے مسائل پر منطبق کیاجاسکتاہے وہ اس سے ناواقف ہوتے ہیں۔ 

قاضی عیاض ترتیب المدارک میں امام عبداللہ بن وہب کے ترجمہ میں نقل کرتے ہیں کہ یوسف بن عدی کہتے ہیں:

میں نے لوگوں کو یاتومحدث پایایافقییہ پایا سوائے عبداللہ بن وہب کہ میں ن ان کو محدث اورفقییہ دونوں پایا۔

قال یوسف بن عدی ادرکت الناس فقیھاغیرمحدث ومحدثا غیرفقیہ خلاعبداللہ بن وہب، فانی رایتہ فقیھامحدثا زاہدا،(ترتیب المدارک 3/231-236)

اگر کفایت اللہ صاحب کی بات درست ہو کہ حدیث کے ضمن میں فقاہت خودبخود حاصل ہوجاتی ہے یاپھر جوجتنا بڑامحدث وہ اتنابڑا فقیہہ توپھر یوسف بن عدی کو فقییہ اورمحدث کی تقسیم کی ضرورت کیوں پڑتی ۔جومحدث ہوتاوہ خودبخود فقیہہ ہوتا اوران کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ لوگوں کو میں نے یاتو فقیہہ پایایامحدث پایا۔

امام ترمذی کی کتاب جامع ترمذی یاسنن الترمذی سے ہرطالب علم واقف ہوگا۔ ان کی کتاب ایک جانب طالب علم کو فقہاء کے مستدلات اوراختلافات سے روشناس کراتی ہے تودوسری حدیث کے مقام ومرتبہ کی بھی وضاحت کرتی ہے اوراس وجہ سے اس کتاب کو بڑی قدر وقیمت کی نگاہ سے دیکھاگیاہے۔ 

امام ترمذی بذات خود عظیم الشان محدث ہیں۔ اس کے باوجود دیکھئے وہ ایک مسئلہ کے بارے میں کیافرماتے ہیں۔ 

وکذلک قال الفقہاء وھم اعلم بمعانی الحدیث(ترمذی1/118)اوراسی طرح فقہاء نے کہاہے اور وہ حدیث کے معانی کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

امام ترمذی کا یہ اعتراف صاف صاف بتارہاہے کہ جس طرح الفاظ حدیث کی حفاظت کے نگہبان اورپاسبان محدثین کرام ہیں اسی طرح معانی حدیث کی نگرانی کا شرف فقہاء کرام کوحاصل ہے اوریہی بات فخر المتاخرین حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے بھی ایک مقام پر کہی ہے۔

""پس اس علم کی تحصیل میں دوچیزیں لازم ہیں۔ ایک تو رواۃ کے احوال کی واقفیت ،دوسرے معانی کے فہم میں بڑی احتیاط۔ اس لئے کہ اگراول الذکر میں کوتاہی ہوگی تو کذب اورصدق دونوں مختلط ہوکر رہ جائیں گے اوراگر دوسری چیز میں احتیاط نہ برتی گئی تواس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ مراد غیرمراد کے ساتھ مشتبہ ہوجائے گا اورحصول کار یہ کہ یہ علم جس مقصد کیلئے حاصل کیاجاتاہے وہ پورانہیں ہوگا بلکہ اس کے برعکس انسان گمراہ ہوگا اوردوسروں کو گمراہ کرے گا""۔(عجالہ نافعہ ص4)

اگرحدیث کے الفاظ اورمتن کے معانی کی رہنمائی فقہاء سے حاصل نہ کی جائے تواس کا نتیجہ اورانجام گمراہی ہوتاہے اس کی گواہی امام عبداللہ بن وہب خود دیتے ہیں۔ انہوں نے خود کہاہے کہ لولامالک واللیث لضللت 

اگرمالک اورلیث نہ ہوتے تومیں گمراہ ہوجاتاہے اورایک دوسرے مقام پراس کی وضاحت یوں کی ہے کہ احادیث کی کثرت نے مجھے حیرت میں ڈال دیاتھا اورمیں پریشان ہوگیاتھا۔ امام مالک نے میری رہنمائی کی کہ فلاں حدیث قابل اخذ ہے اورفلاں قابل ترک ہے ۔یہ معمول بہاہے وہ غیرمعمول بہاہے۔

لولاان اللہ انقذ نی بمالک واللیث للضللت،فقیل لہ کیف ذلک؟ قال:اکثرت من الحدیث فحیرنی،فکنت اعرض ذلک علی مالک واللیث ،فیقولان لی:خذ ھذا ودع ھذا (،(ترتیب المدارک 3/231-236،التمہید لابن عبدالبر باب ذکر عیون من اخبارمالک )

اگرمجھے امام مالک اورامام لیث بن سعد کی جانب سے رہنمائی نہ ملتی تومیں گمراہ ہوجاتا۔پوچھاگیاوہ کیسے؟توفرمایا میں نے حدیث کی خوب تحصیل کی جس کے بعد متضادحدیثوں کی وجہ سے میں حیرت میں پڑگیا۔ پھر میں ان حدیثوں کو امام مالک اورلیث بن سعد کے سامنے پیش کرتا اوروہ مجھے بتاتے کہ اس پر عمل کیاجائے گا اوریہ حدیث متروک اورناقابل عمل ہے۔

اوریہی چیز حضرت ابونعیم فضل بن دکین کو بھی پیش آئی کہ وہ احادیث کی روایت توکرتے تھے لیکن ان میں سے کون سی قابل اخذ وعمل ہے اورکون سی قابل ترک ہے اس سے لاعلم تھے اوراس باب میں ان کی رہنمائی امام ابوزفربن الھذیل فرماتے تھے۔ قال ابونعیم الملائی الفضل بن دکین کنت امر علی زفر فیقول لی :تعال حتی اغربل لک ماسمعت ،وکنت اعرض علیہ الحدیث فیقول :ھذا ناسخ ،ھذا منسوخ ،ھذایوخذ بہ ،ھذایرفض (تاریخ الاسلام للذہبی 6/178)

ابونعیم کہتے ہیں کہیں میں امام زفر کے پاس سے گزرتاتووہ فرماتے یہاں آؤ میں تمہارے لئے احادیث کوچھان دوں۔ میں ان پر سنی ہوئی احادیث پیش کرتا اوروہ فرماتے یہ ناسخ ہے۔یہ منسوخ ہے ۔اس پر عمل کیاجائے گااوراسے ترک کردیاجائے گا۔

واضح رہے کہ ابونعیم فضل بن دکین مشہور محدث ہیں اورامام یحیی بن معین کے ہم عصر ہیں اورعلم حدیث میں ان کا مقام بہت بلند ہے اس کے باوجود صرف احادیث کی واقفیت فقاہت کیلئے کافی نہیں ہوئی بلکہ اس سلسلے میں امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام زفر بن الہذیل نے ان کی رہنمائی اوردستگیری کی ۔

حضرت عبداللہ بن مبارک کا مقام ومرتبہ حدیث وفقہ میں جس قدر نمایاں ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ان کے جیسی جامع شخصیات بہت کم اوراقل قلیل ہوتی ہیں۔ ان سے جب پوچھاگیاکہ کوئی فتویٰ دینے کا اہل کب ہوتاہے توانہوں نے فرمایاکہ 

اذاکان عالماًبالاثر،بصیرابالرای(� �امع بیان العلم وفضلہ ص818 وسندہ لاباس بہ کماقال المحقق)

جب وہ آثار سے واقف ہو اوررائے میں بصیرت اوردرک رکھتاہو۔

اگرمحض آثار سے ہی فقاہت حاصل ہوجایاکرتی توحضرت عبداللہ بن مبارک یہ کبھی نہ فرماتے کہ فتویٰ دینے کیلئے یعنی فقاہت حاصل کرنے کیلئے رائی میں بصیرت اورگہرارسوخ ضروری ہے۔

محدثین کرام میں حفظ حدیث کا رواج زیادہ رہاہے اوراحادیث سے مسائل کااستنباط واخراج کم رہاہے اس کااعتراف امام احمد بن حنبل نے بھی کیاہے چنانچہ ان سے جب مشہور محدث عبدالرزاق بن ہمام کے بارے میں پوچھاگیاکہ کیاوہ فقییہ بھی تھے توفرمایاکہ اہل حدیث میں فقاہت بہت کم ہوتی ہے۔

جاءفي [طبقات الحنابلة لابن أبي يعلى رحمه الله تعالى] (2/392 ـ تحقيق: العثيمين)
قال محمد بن يزيد المستملي رحمه الله تعالى: "سألت أحمد عن عبدالرزاقكان له فقه؟ فقال: ما أقل الفقه في أصحاب الحديث" ا.هـ

اگر کفایت اللہ صاحب کے بقول حدیث دانی فقاہت کاپیمانہ ہوتی تو پھر عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی کے بارے میں امام احمد بن حنبل کاجواب مختلف ہوتا۔ اس کے برعکس وہ فرماتے ہیں کہ اہل حدیث میں فقاہت بہت کم ہوتی ہے۔

جب امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کاذکر چل نکلاہے تویادش بخیر یہ بھی تازہ کرلیں کہ علم حدیث میں امام احمد بن حنبل کامقام ومرتبہ امام شافعی سے بہت زیادہ ہے حتی کہ امام شافعی ان سے علم حدیث میں مدد طلب کرتے تھے لیکن کسی نے یہ نہیں کہاکہ فقہ میں امام احمد کامرتبہ ومقام امام شافعی سے زیادہ بلند ہے۔بلکہ اس کے برعکس کئی سارے اجلہ فقہاء نے توان کو ائمہ مجتہدین میں ہی شمار نہیں کیا۔

آخرمیں ان حضرات کیلئے جن کو خطیب بغدادی کی ذات سے بڑاشغف اورتعلق خاطر ہے اورجولوگ ان کی شرف اصحاب الحدیث سے مختلف ٹکرے اوراقتباس نقل کرتے رہتے ہیں ان کیلئے خطیب بغدادی کی النصیحۃ لاہل الحدیث کا ایک ٹکرا ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں تاکہ ان کی بھی تسلی اورتشفی ہوجائے۔ 

خطیب بغدادی صاف اورصریح الفاظ میں بغیر کسی لگی لپٹی کے کہتے ہیں کہ کتب حدیث کے جمع کرنے یااس کیروایت کرنے سے کوئی فقیہہ نہیں بن جاتابلکہ اس کیلئے احادیث کے معنی ومرا د میں غوروفکر کرنا ضروری ہوتاہے۔

ولیعلم ان الاکثار من کتب الحدیث وروایتہ لایصیربھاالرجل فقیھا،انما یتفقہ باستنباط معانیہ وانعام التفکرفیہ۔(شرف اصحاب الحدیث ونصیحۃ اھل الحدیث ص252


حدیث کا علم بہت اہمیت رکھتاہے اورمحدثین کرام اورناقلین عظام نے اپنی جانب سے بڑی خدمات انجام دیں ہیں جزاھم اللہ خیراً۔لیکن صرف یہی چیز اس کیلئے کافی نہیں ہوسکتی کہ وہ فقیہہ بن جائے ۔بلکہ اس کے علاوہ دیگر علوم کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔اوریہی وجہ تھی کہ امام احمد بن حنبل نے باوجود علم حدیث میں امام شافعی سے آگے ہونے کے امام شافعی کی شاگردی اختیار کی۔اوریہی وجہ ہے کہ باوجود علم حدیث کے سرخیل اورامام ہونے کے اورتمام احادیث سے واقفیت رکھنے کے عبدالرحمن بن مہدی نے امام شافعی سے گزارش کی تھی کہ وہ اصول فقہ پر کتاب لکھیں۔ 

امام شافعی نے جن احادیث سے اصول فقہ پر استدلال کیاہے اورباطل فرقوں کے دعووں کو رد کیاہے کیاوہ احادیث امام احمد بن حنبل اورامام عبدالرحمن بن مہدی کے علم میں نہ تھیں؟یقیناًتھیں اوراس کے طرق اورمتابعات سے وہ امام شافعی سے کہیں زیادہ واقف تھے لیکن ان سے استدلال کس طرح کیاجائے ۔یہ امام شافعی کے فقیہانہ ذہن نے طے کیا۔

ایک اورمثال ذکر کردوں۔

علی بن مسہر کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی مجلس لگی ہوئی تھی۔ عبداللہ بن مبارک آئے اوریہ مسئلہ پوچھاکہ ایک شخص ہانڈی پکارہاتھاکہ ایک چریااس میں گری اورمرگئی۔تواس کا کیاحکم ہوگا۔امام ابوحنیفہ نے اپنے شاگردوں اورمجلس میں موجود لوگوں سے مسئلہ بتانے کوکہا۔انہوں نے حضرت ابن عباس کی روایت بیان کی کہ شوربہ کو بہادیاجائے گا اورگوشت کھالیاجائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایاکہ ہم بھی یہی کہتے ہیں لیکن ایک شرط کے ساتھ۔ وہ شرط یہ ہے کہ اگر ہانڈی حالت جوش میں نہ ہو یعنی ہانڈی کے اندر پک رہاشوربہ خوب گرم نہ ہو تواسی روایت پر عمل ہوگالیکن اگر شوربہ بہت گرم ہوگا تو پھر شوربہ بھی بہادیاجائے گااورگوشت بھی نہیں کھایاجائے گااوراس کی وجہ یہ ہے کہ سکون کی حالت میں چریاکے گرنے سے ہانڈی میں موجود گوشت کے ٹکروں پر کوئی اثر نہیں پڑتالیکن اگرہانڈی ابل رہی ہو تو جوشوربہ مردہ چڑیا کے اعضاسے لگے گا وہ ہانڈی میں موجود گوشت کے دیگر ٹکروں تک سرایات کرجائے گاجیساکہ سرکہ اور اورپانی سرایت کرجاتاہے۔اس لئے گوشت اورشوربہ دونوں کو ضائع کردیاجائے گا۔ 

یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مبارک نے فرمایا رزین ۔رزین فارسی کا جملہ ہے اسکا معنی سونے کے ہیں۔(الانتقاء ص304) 

مطلب یہ ہے کہ یہ کلام سونے کے مثل ہے۔ جیساکہ آج بھی ہم کسی اچھی بات پر کہتے ہیں کہ اسے سونے کے پانی سے لکھاجاناچاہئے۔

توجیساکہ روایت ہرایک کومعلوم تھی لیکن اس میں کیاقید چھپاہواہے اوراس کو کس طرح نافذ کرناہے۔ یہ امام ابوحنیفہ نے بتایا۔

علاوہ ازیں فقیہہ کیلئے نص کی دلالت، اشارہ،اقتضاء وغیرہ بھی جانناضروری ہے۔ عربی زبان سے اچھی طرح واقفیت بھی ضروری ہے۔ ناسخ ومنسوخ کا علم بھی ضروری ہے۔اس کے علاوہ قیاس، تعلیل،مناط حکم،وجوہ تخریج،عرف،عادت،استصحاب،مص لحت عامہ ان سب چیزوں کو جانناضروری ہے۔ جب کہ ان امور کا جاننا ایک محدث کیلئے ضروری نہیں ہے۔ 

آخر میں میں نے سوچاتھاکہ ابن جوزی نے تلبیس ابلیس اورآفۃ اصحاب الحدیث میں غیرفقیہہ محدثین کے بارے میں جوکچھ لکھاہے اورمعالم السنن کے مصنف علامہ خطابی نے اپنے جن شیخ کا واقعہ لکھاہے اس کوبھی ذکرکروں لیکن طوالت کے خوف سے اسے درکنارکرتاہوں۔کیونکہ

طوالت مخل بھی ہوتی ہے اورممل بھی ۔لہذا صرف اتنے پر ہی اکتفاء کیاجاتاہے اورانشاء اللہ یہ مختصر مضمون یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہوگاکہ تمام محدثین کے فقیہہ ہونے کا دعویٰ ایک بے بنیاد اورجذباتیت پر مبنی ہے جس کے پیچھے دلائل نہیں ہیں۔ والسلام

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔