Pages

Friday 30 March 2012

عقیدہ میں سلفیوں کا اختلاف ۔حق پر کون؟

عقیدہ میں سلفیوں کا اختلاف ۔حق پر کون؟
کچھ غیرمقلدین کے ساتھ تبادلہ خیال کااتفاق ہوا۔عقائد کے سلسلہ میں ان سے بات ہوئی ۔تویوں تو بیشتر طورپر غیرمقلدین کا یہی حال ہوتاہے کہ وہ مختلف کتابوں کی مختلف عبارتوں میں کتربیونت کرکے اپنامطلب نکالتے ہیں اورناواقفوں کوگمراہ کرتے ہیں۔اس میں بھی یہی حال دیکھا۔وہ عموماکرتے یہ ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی جانب منسوب کتاب الفقہ الاکبر وغیرہ کی چند عبارتیں لیتے ہیں اور پھرایک کتاب جو مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے لکھی المہند علی المفند اس سے چند باتیں لے کر اعتراض کرتے ہیں اورپھرکہتے ہین کہ وہ صحیح یاآج کے احناف صحیح ہیں اورکن کا عقیدہ صحیح ہے۔
ایسی باتیں سنتے سنتے جب کان پک گئے توسوچاکہ غیرمقلدوں کو بھی ان کی اپنی تضادبیانی دکھایاجائے اورہم بھی سوال کریں کہ کون صحیح ،ابن تیمیہ ،ابن قیم یاالبانی ،ابن عثمین اوردیگرمدعیان سلف
فناء نار کا مسئلہ
ابن تیمیہ فناء نار کے قائل ہیں یعنی جہنم آخرکار ختم ہوجائے گی اوراس کو وہ رحمت الہی کا تقاضامانتے ہیں ۔اس کی صراحت حافظ ابن قیم نے حادی الارواح فی بلادالافراح (2/168-228)میں پوری تفصیل کے ساتھ کی ہے اوربات یہیں تک ختم نہیں ہوتی ۔اس پر مشہور اصولی اورفقیہہ محمدبن اسماعیل الامیرالصنعانی نے ابن تیمیہ کی تردیدمیں ایک کتاب لکھی ۔جس کا نام رکھا ہے۔
x
رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النار

اس کتاب پر مقدمہ مشہور سلفی یاغیرمقلد عالم ناصرالدین البانی نے لکھاہے اس میں وہ لکھتے ہیں۔
· فأخذت في البطاقات نظرا وتقليبا ، عما قد يكون فيها من الكنوز بحثا وتفتيشا ، حتىوقعت عيني على رسالة للأمام الصنعاني ، تحت اسم (رفع الأستار لابطال أدلة القائلينبفناء النار) . في مجموع رقم الرسالة فيه (2619) ، فطلبته ، فإذا فيه عدة رسائل ،هذه الثالثة منها . فدرستها دراسة دقيقة واعية ، لان مؤلفها الإمام الصنعاني رحمهالله تعالى رد فيها على شيخ الإسلام ابن تيمية وتلميذه ابن القيم ميلهما الى القولبفناء النار ، بأسلوب علمي رصين دقيق ، (من غير عصبية مذهبية . ولا متابعة اشعريةولا معتزلية) كما قال هو نفسه رحمه الله تعالى في آخرها . وقد كنت تعرضت لرد قولهماهذا منذ اكثر من عشرين سنة بإيجاز في (سلسلة الأحاديث الضعيفة) في المجلد الثانيمنه (ص 71 - 75) بمناسبة تخريجي فيه بعض الأحاديث المرفوعة ، والآثار الموقوفة التياحتجا ببعضها على ما ذهبا إليه من القول بفناء النار ، وبينت هناك وهاءها وضعفها ،وان لابن القيم قولا آخر ، وهو أن النار لا تفنى أبدا ، وان لابن بيمية قاعدة فيالرد على من قال بفناء الجنة والنار .وكنت توهمت يومئذ انه يلتقي فيها مع ابنالقيم في قوله الأخر ، فإذا بالمؤلف الصنعاني يبين بما نقله عن ابن القيم ، ان الردالمشار إليه ، انما يعني الرد على من قال بفناء الجنة فقط من الجهمية دون من قالبفناء النار ! وانه هو نفسه - اعني ابن تيمية - يقول : بفنائها ، وليس هذا فقط بلوان أهلها يدخلون بعد ذلك جنات تجري من تحتها الأنهار ! وذلك واضح كل الوضوح فيالفصول الثلاثة التي عقدها ابن القيم لهذه المسالة الخطيرة في كتابه (حادي الأرواحإلى بلاد الأفراح) (2 / 167 - 228) ، وقد حشد فيها (من خيل الأدلة ورجلها ، وكثيرهاوقلها ، ودقها وجلها ، واجري فيها قلمه ، ونشر فيها علمه واتى بكل ما قدر عليه منقال وقيل ، واستنفر كل قبيل وجيل) كما قال المؤلف رحمه الله ، ولكنه أضفى بهذاالوصف على ابن تيمية ، وابن القيم أولي به وأحرى لأننا من طريقه عرفنا راي ابنتيمية ، في هذه المسالة ، وبعض أقواله فيها ، وأما حشد الأدلة المزعومة وتكثيرها ،فهي من ابن القيم وصياغته ، وان كان ذلك لا ينفي انه تلقى ذلك كله أو جله من شيخه(رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النارص ۳)

البانی صاحب نے اس پورے پیراگراف میں جوکچھ کہاہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ امیر محمد بن اسماعیل الصنعانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم کے رد میں یہ کتاب لکھی ہے اوراس کتاب میں ان دونوں پر علمی تنقید کی گئی ہےاوریہ کہ ابن تیمیہ کاقول صرف اس قدر نہیں ہے کہ جہنم فناہوجائے گی بلکہ اس کے بعد اس میں اتناضافہ بھی ہے کہ اس کے بعد ان کو یعنی جہنمیوں کو جنت میں میں داخل کیاجائے گا۔
ابن تیمیہ کے تمام دلائل چاہے وہ قوی ہویاکمزور،چھوٹے ہوں یابڑے،تھوڑاہویازیادہ یعنی دلیل کے نام پر جوکچھ بھی انہیں مل سکتاتھا۔اس کو ابن قیم نے اپنی کتاب حادی الارواح الی بلاد الافراح میں نقل کردیاہے۔
ابن تیمیہ اورابن قیم کے درمیان فناء نار کے سلسلے میں تھوڑااختلاف ضرور ہے لیکن ہمیں سردست ابن تیمیہ سے بحث ہے۔
امید محمد بن اسماعیل الصنعانی لکھتے ہیں۔
اعلم أن هذه المسألة اشار إليها الإمام الرازي في مفاتيح الغيب ولم يتكلم عليها بدليل نفي ولا إثبات ولا نسبها إلى قائل معين ولكنه استوفى المقال فيها العلامة ابن القيم في كتابه حادي الأرواح إلى ديار الأفراح نقلا عن شيخه العلامة شيخ الإسلام أبي العباس ابن تيمية فإنه حامل لوائها ومشيد بنائها وحاشد خيل الأدلة منها ورجلها ودقها وجلها وكثيرها وقليلها وأقر كلامه تلميذه ابن القيم (رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النارمقدمہ امیرالصنعانی)
جان لو کہ اس مسئلہ کی جانب امام رازی نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں اشارہ کیاہے لیکن اس پر کسی قسم کا کوئی کلام نہیں کیااورنہ ہی اس قول کو اس کے قائل کی جانب منسوب کیا۔لیکن اس بارے میں سب سے زیادہ تفصیلی بحث ابن قیم نے اپنی کتاب حادی الارواح الی دیارالافراح میں اپنے شیخ ابن تیمیہ کے فرمودات کی روشنی میں کیاہے۔اس لئے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ ہی سرخیل اورسرفہرست اوراس کے دلائل وبراہین ذکر کرنے والے ہیں اورابن تیمیہ کے کلام کا ابن قیم نے اثبات کیاہے۔
ایک صاحب جن کا نام عبدالکریم صالح الحمید ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے ''القول المختار لبیان فناء النار''جس میں البانی پرتنقید کیاہے اورابن تیمیہ کے مسلک کہ جہنم فناء ہوجائے گی اسی کی تائید کی ہے چنانچہ یہ صاحب البانی پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
''اس کتاب کے لکھنے کا باعث یہ ہوا کہ ہم نے دیکھاکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن قیم کی کتاب میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے پھر ہم نے کتاب رفع الاستار دیکھی اوروجہ کا پتہ چل گیا۔یہ کتاب جو الالبانی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔اس میں البانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم پر سخت کلام کیاہے اورکہاہے کہ انہوں نے اپنے اس مسلک کیلئے آیات واحادیث میں خواہ مخواہ تکلف اورتاویل سے کام لیا بلکہ البانی نے یہاں تک کہاکہ
معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ جن چیزوں میں عقل کو کوئی دخل نہیں ہے اس میں بھی انہوں نے عقل کی دخل اندازی سے کام لینے کی کوشش کی جیساکہ معتزلہ کرتے ہیں البانی نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ یہ تک کہاکہ معتزلہ اوراشاعرہ نے جن صفات کی تاویل کی ہے وہ بہتر ہے کہ بہ نسبت اس کے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ جن آیات واحادیث میں تاویل کی ہے(القول المختار لبیان فناء النار صفحہ 13-14)
اس مسئلہ پر ایک اورصاحب نے کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے''کشف الاستار لابطال ادعاء فنار النار''اور اس میں کوشش کی ہے کہ کسی طرح یہ ثابت کردیاجائے کہ فناء نار کے ابن تیمیہ قائل نہیں ہیں۔ لیکن یہ کوشش سعی لاحاصل ہے اورغیرمقلدین کی پرانی عادت ہے کہ جہاں کہیں وہ کسی ایسی بات یاکوئی ایسی کتاب دیکھتے ہیں جوان کے مزعومات کے خلاف ہو تو فوراًاس کا انکار کردیتے ہیں بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ علمی اصول تحقیق کیاکہتاہے۔ یہی کرتب بازی انہوں نے زغل العلم میں بھی دکھائی ہے اورچونکہ حافظ ذہبی نے اس میں ابن تیمیہ پر سخت تنقید کی ہے لہذا ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ حافظ ذہبی کی تصنفیات کی فہرست سے یہ کتاب نکال دیاجائے اوراسے مشکوک ثابت کیاجائے ۔

حضرت ابن تیمیہ اورابن قیم کے ا س موقف پر کہ جہنم بالآخر فناہوجائے گی پر ان کے ایک معاصر مشہور فقیہہ اورمحدث تقی الدین سبکی نے بھی رد کیاہے ان کی کتاب کا نام ہے۔"الاعتبار ببقاء الجنۃ والنار"جس میں انہوں نے ان حضرات پر تردید کی ہے جو کہ جہنم کے فناہوجانے کے قائل ہیں۔

حضرت ابن تیمیہ ابن قیم کا موقف

حضرت ابن تیمیہ کی ایک تصنیف "الردعلی من قال بفناء الجنۃ والنار"کے نام سے ہے۔اس میں انہوں نے جہنم کے فناء ہونے پر دس دلیلیں بیان کی ہیں۔ ایک دودلیل کو آپ بھی دیکھیں اورپرکھیں۔
حضرت ابن تیمیہ سب سے پہلے کہتے ہیں کہ جہنم کے فناء ہونے کا قول ایساہے کہ اس بارے مین سلف اورخلف میں دوآراء رہی ہیں۔

واماالقول بفناء النار ففیھاقولان معروفان عن السلف والخلف ،والنزاع فی ذلک معروف عن التابعین ومن بعدھم ۔(مقدمہ رفع الاستار ص9)

فناء نار کے بارے میں سلف اورخلف میں دوقول رہے ہیں اوراس بارے میں تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں نزاع رہاہے۔

والرابع : ان النار قیدھابقولھا (لابثین فیہااحقابا)وقولہ (خالدین فیہا الاماشاء اللہ)وقولہ (خالدین فیہامادامت السماوات والارض الاماشاء ربک ) فھذہ ثلاث آیات تقتضی قضیۃ موقتۃ اومعلقۃ علی شرط،وذاک دائم مطلق لیس بموقت ولامعلق۔

چوتھی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں نار کو مذکورہ تین آیتوں سے مقید کیاگیاہے۔ یہ تینوں آیتیں نار کے موقت اورشرط پر معلق ہونے کا تقاضاکرتی ہیں اورجس کی صفت دوام اورمطلق کی ہوتی ہے وہ موقت اورمعلق نہیں ہوتی ہے۔
السادس:ان الجنۃ من مقتضی رحمتہ ومغفرتہ والنار من عذابہ، وقد قال: (نبیء عبادی انی اناالغفور الرحیم وان عذابی ھوالعذاب الالیم) وقال تعالیٰ اعلموا ان اللہ شدید العقاب وان اللہ غفوررحیم)وقال تعالیٰ تعالی(ان ربک لسریع العقاب وانہ لغفورالرحیم۔ )
فالنعیم من موجب اسمائہ التی ھی من لوازم ذاتہ ،فیجب دوامہ بدوامعانی اسمائہ وصفاتہ واماالعذاب فانما ھو من مخلوقاتہ والمخلوق قد یکون لہ انتھاء مثل الدنیا وغیرھا ،لاسیما مخلوق خلق لحکمۃ یتعلق بغیرہ۔

چھٹی دلیل یہ ہے کہ جنت اللہ کی رحمت اورمغفرت کے تقاضوں میں سے ہے اورجہنم اس کے عذاب کومقتضی ہے۔اوراس کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے متعدد آیتوں مین خبردی ہے۔پس نعمت اس کے ان اسماء کے موجبات میں سے ہے جواس کی ذات کو لازم ہے لہذا اس کا دوام اس کے معانی اورصفات کے دوام کے ساتھ ہی متحقق ہوسکتاہے جہاں تک عذاب کی بات ہے تو وہ اس کی مخلوقات مین سے ہے اورمخلوق کی کبھی انتہاء بھی ہوتی ہے جیسے کہ دنیا اوردیگر چیزیں خاص طورپر وہ مخلوق جسے دوسری حکمت کی وجہ سے پیداکیاگیاہو۔

الوجہ السابع: انہ قد اخبر ان رحمتہ وسعت کل شی وانہ "کتب علی نفسہ الرحمۃ"وقال"سبقت رحمتی غضبی "و"غلبت رحمتی غضبی"وھذا عموم واطلاق فاذا قدرعذاب لاآخرلہ ،لم یکن ھناک رحمۃ البتۃ(مقدمہ رفع الاستار ۱۳)
ساتویں دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کی رحمت ہرچیز پر وسیع ہے اوراس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کیاہے اورفرمایاہے کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لئے ہوئے ہے اورمیری رحمت میرے غضب پر غالب ہے اوریہ تمام عموم اوراطلاق کےساتھ وارد ہواہے پھراگرکوئی عذاب ایساہو جس کی کوئی انتہاء نہ ہوتو یہاں رحمت کا قطعی تحقق نہ ہوگا۔

البانی کا موقف
البانی نے ابن تیمیہ پر اس مسئلہ پر تنقید کرتے ہوئے رفع الاستار میں جوکچھ بھی لکھاہے وہ پیش خدمت ہے۔ابن تیمیہ کی جوساتویں دلیل تھی کہ اگرلانہایہ عذاب ہوتو رحمت کا تحقیق نہیں ہوگا۔ اس پر البانی صاحب فرماتے ہیں:
فکیف یقول ابن تیمیۃ :ولوقدرعذاب لاآخر لہ لم یکن ھناک رحمۃ البتۃ فکان الرحمۃ عندہ لاتتحقق الابشمولھا للکفار المعاندین الطاغین !الیس ھذا من اکبرالادلۃ علی خطا ابن تیمیۃ وبعدہ ھو ومن تبعہ عن الصواب فی ھذہ المسالۃ الخطیرۃ !فغفرانک اللھم !
کہ ابن تیمیہ کیسے اس کے قائل ہیں کہ اگر جہنم فناء نہ ہوتو رحمت الہی کا تحقق نہیں ہوگا۔گویاکہ رحمت کا ثبوت جبھی متحقق ہوگا جب اس میں کفار اورسرکشوں کو بھی شامل کیاجائے اورکیایہ ابن تیمیہ اوراس مسئلہ میں ان کی پیروی کرنے والے کی غلطی کا اثبات نہیں ہے جو اس خطرناک مسئلہ میں ان کی پیروی کررہے ہیں۔اس کے بعد البانی صاحب نے یہ تاویل کرنی چاہی ہے کہ یہ ان کے ابتدائے حال کا اورسن شباب کا واقعہ تھا جب کہ ان مطالعہ کتاب وسنت میں وسیع نہیں تھا اورادلہ شرعیہ میں انہیں مہارت حاصل نہیں تھی (بعض لوگ اسی عمر مین انہیں مجتہد ماننے پر بضد ہیں)
ولعل ذلک کان منہ ابان طلبہ للعلم،وقبل توسعہ فی دراسۃ الکتاب والسنۃ،وتضلعہ بمعرفۃ الادلۃ الشرعیۃ ۔(مقدمہ رفع الاستارص25
یہ تاویل کئی وجوہ کی بناء پر باطل ہے لیکن اس کی تفصیل ہم کسی اوروقت کیلئے اٹھاکر ررکھتے ہیں ۔

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جہنم کے فناء کاقول جہم بن صفوان کا ہے جیساکہ لسان المیزان میں 2/334میں مذکور ہے۔تو اب بعض صفات میں تاویل کی وجہ سے احناف کو جہمی کہنے والے ابن تیمیہ کو اس مسئلہ کی وجہ سے کیاکہیں گے وہ خود فیصلہ کرلیں ۔ہم یہ فیصلہ انہی پر چھوڑتے ہیں۔

اس سے بھی بڑاسوال یہ ہے کہ حضرت ابن تیمیہ اورحضرت ابن قیم کی ایک رائے ہے اوردوسری رائے البانی صاحب کی ہے ۔ان دونوں میں برحق کون ہے اورمدعیان سلف کی زبان میں بات کریں توگمراہ کون ہے؟
مسئلہ استقرار علی العرش
قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے الرحمن علی العرش استویٰ ،اس آیت پر ہماراایمان ہے سلف سے اس تعلق سے جوکچھ مروی ہے وہ یہ کہ استواء معلوم ہے،اس کی کیفیت مجہول اوراس تعلق سے سوال کرنا بدعت ہے۔سلف میں کسی نے بھی استواء کی تفسیر استقرار کے ساتھ نہیں کی ہے۔لیکن حضرت ابن تیمیہ اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستقر ہیں۔اوریہ کہ اللہ مچھر کی پیٹھ پر بھی مستقر ہوسکتاہے اورالبانی صاحب اس عقیدہ کو بدعت مانتے ہیں۔چنانچہ ابن تیمیہ کہتے ہیں۔

ولو قد شاء لاستقر على ظهر بعوضة فاستقلت به بقدرته ولطف ربوبيته فكيف على عرش عظيم أكبر من السموات والأرض وكيف تنكر أيها النفاخ أن عرشه يُقِلُّه والعرش أكبر من السموات السبع والأرضين السبع ولو كان العرش في السموات والأرضين ما وسعته ولكنه فوق السماء السابعة
(بیان تلبیس الجھمیۃ فی تاسیس بدعھم الکلامیۃ3/243)
اوراگراللہ چاہے تو وہ مچھر کی پیٹھ پر بھی استقرارکرسکتاہے اوراس پر اپنی قدرت اورلطف ربویت سے بلند ورفیع ہوسکتاہےتوعرش عظیم جو ساتوں زمین اورآسمان سے بھی زیادہ بڑاہے تواس پر اللہ استقرارکیوں نہیں کرسکتا۔توبڑی بڑی ہانکنے والے تم اس کا انکار کیسے کرتے ہو اللہ کاعرش اس کے استقرار کیلئے کافی نہیں ہے۔

البانی کا موقف
دیکھئے اس بارے میں البانی صاحب کاکیاموقف ہے؟البانی صاحب اس سلسلے میں مجاہد کا اثر ذکر کرنے کے بعد کہ جس مین عرش پر اللہ کے قعود کی صراحت ہے اس کومنکر بتاتے ہوئے استقرار کی نفی کی ہے۔

ولست ادری ماالذی منع المصنف-عفااللہ عنہ-من الاستقرار علی ھذاالقول علی جزمہ بان ھذاالاثر منکر کماتقدم عنہ فانہ یتضمن نسبۃ القعود علی العرش للہ عزوجل ،وھذایستلزم نسبۃ الاستقرار علیہ للہ تعالیٰ وھذا ممالم یرد بہ ،فلایجوز اعتقادہ ونسبتہ الی اللہ عزوجل (مختصر العلو للعلی العظیم 1/16)
اورمیں نہیں جانتا کہ مصنف(حافظ ذہبی )کو اس قول پر جمنے سے کس چیز نے منع کیاہے باوجود اس کے کہ یہ اثر منکر ہے جیساکہ گذرچکاکیونکہ اس اثر کو اختیار کرنے کا مطلب اللہ عزوجل کیلئے عرش پر قعود کو تسلیم کرناہوگا۔اوراس کی وجہ سے عرش پر اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے استقرارلازم آئے گا جب کہ اس بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے لہذا اللہ عزوجل کی جناب مین ایسااعتقاد اورایسی باتوں کی نسبت جائز نہیں ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔