Pages

Friday 13 April 2012

مخالفت حدیث کا الزام ،حقیقیت اورواقعیت

مخالفت حدیث کا الزام ،حقیقیت اورواقعیت
کسی کا خوبصورت ساعربی کا شعر ہے
وکم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم

بہت سے لوگ صحیح قول پر اعتراض کرتے ہیں اوراصل غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ سمجھتے غلط ہیں۔حدیث کی مخالفت کی حقیقت کیاہے۔کسی شخص ،فرد،جماعت اورگروہ پر کب مخالفت حدیث کا الزام کب صادق آئے گا۔اس بارے میں ضرورت ہے کہ ایک تفصیلی بحث کی جائے۔
بہت سے بزعم خود واقف کار اوردرحقیقت ناآشنائے علم وفن یہ سمجھتے ہیں کہ اگرکسی حدیث کے ظاہر کی مخالفت کی جارہی ہوتو وہ حدیث کی مخالفت ہے اورجھٹ سے کسی پر بھی مخالفت حدیث کا الزام لگادیتے ہیں اوریہ کہناشروع کردیتے ہیں کہ تم لوگ حدیث چھوڑ کر اپنے امام اورفلاں وفلاں کی پیروی کررہے ہو۔حالانکہ وہ لوگ جو شرعی علوم وفنون میں کماحقہ درک نہیں رکتھے ان کیلئے کسی مجتہد کی پیروی ہی حدیث پرعمل ہے۔علامہ شاطبی کا نام اورکام سبھی کومعلوم ہے۔ان کی کتاب الاعتصام اورالموافقات بہت مشہور ہے۔وہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں۔
فتاوي المجتهدين بالنسبة إلى العوام كالأدلة الشرعية بالنسبة إلى المجتهدين، والدليل عليه أن وجود الأدلة بالنسبة إلى المقلدين وعدمها سواء إذ كانوا لا يستفيدون منها شيئًا، فليس النظر في الأدلة والاستنباط من شأنهم ولا يجوز ذلك لهم ألبتة، وقد قال تعالى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ}، والمقلِّد غير عالم، فلا يصح له إلا سؤال أهل الذكر، وإليهم مرجعه في أحكام الدين على الإطلاق، فَهُمْ إذًا القائمون له مقام الشارع وأقوالهم قائمة مقام الشارع" (6). 6- التقرير والتحبير، لابن أمير حاج، دار الكتب العلمية.)
میرے خیال سے علامہ شاطبی کے ملون جملے اس حقیقت اوروضاحت کیلئے کافی ہیں ورنہ پھربات نکلے گی تو پھردور تلک جائے گی۔ اس بحث کو یہیں ختم کرتاہوں۔

حضرت ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی ہے

رفع الملام عن ائمۃ الاعلام
کتاب لکھنے کاجوداعیہ تھاوہ یہ کہ بعض جاہل قسم کے لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے تھے کہ فلاں امام نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہے۔اوراس طرح کے دوسرے اعتراضات۔ اس پر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔
اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں ہوسکتاہے کہ ایک خبر جوآج ہم تک سند ضعیف اورمنقطع یاکسی مجہول راوی کے واسطے سے پہنچ رہی ہو وہ ان ائمہ کرام کے پاس صحیح سند سے پہنچی ہو اسی بناء پر انہوں نے اس پر اپنے قول کا مدار رکھاہو۔
بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم القضية‏.‏
(رفع الملام عن الائمۃ الاعلام ص18)
بلکہ ان دواوین کے جمع ہونے سے پہلے جو ائمہ مجتہدین گزرے ہیں وہ متاخرین سے سنت سے واقفیت کے معاملہ میں بہت آگے تھے۔اس لئے بہت ساری احادیث ایسی ہیں جو ان تک پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئیں لیکن وہ ہم تک کسی مجہول راوی یامنقطع سند کے واسطے سے پہنچتی ہیں یابالکل ہی نہیں پہنچتی ہیں۔ان کے دواوین ان کے سینے تھے جس میں موجودہ کتب حدیث سے کہیں بڑھ کر احادیث جمع تھیں اوریہ ایسی بات ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔
آپ نے حضرت ابن تیمیہ کا یہ فرمان ذیشان سن لیا۔کتنی صراحت اوروضاحت کے ساتھ انہوں نے یہ کہہ دیاکہ یہ عین ممکن ہے کہ انہوں نے جس حدیث کی بناء پر اپنے قول کی بنیاد رکھی ہو وہ ان کی نگاہ میں صحیح ہو اورانہیں صحیح سند سے پہنچی ہو اوروہی حدیث ہم تک کمزور منقطع سند اورمجہول راویوں کے واسطہ سے پہنچی ہو۔
اتنے پر ہی بس نہیں ۔ذراآگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ حضرت ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ کسی حدیث پر عمل کرنے اورکسی حدیث کے ترک کرنے میں کسی مجتہد کی کیادلیل ہے وہ اس کے سینہ میں مخفی ہے اوربسااوقات ایساہوتاہے کہ مجتہد کسی حدیث کوترک کرنے پر اپنی دلیل کا اظہار نہیں کرتا لیکن اسکے پاس حجت اوردلیل ہوتی ہے۔
وفي كثير من الأحاديث يجوز أن يكون للعالم حجة في ترك العمل بالحديث لم نطلع نحن عليها، فإن مدارك العلم واسعة ولم نطلع نحن على جميع ما في بواطن العلماء والعالم قد يبدي حجته وقد لا يبديها وإذا أبداها فقد تبلغنا وقد لا تبلغ وإذا بلغتنا فقد ندرك موضع احتجاجه وقد لا ندركه(المصدرالسابق ص33)
اوربہت ساری حدیث میں یہ ممکن ہے کہ عالم (مجتہد)کے پاس حدیث پر عمل ترک کرنے کی دلیل ہو جس پر ہم مطلع نہ ہوسکے ہوں۔بے شک مدارک علم وسیع ہیں اورعلماء کے سینوں میں کیاہے ہم اسے نہیں جان سکتے اورعالم کبھی اپنے دلیل کااظہار کرتاہے اورکبھی نہیں کرتا جب وہ اظہارکرتاہے توہم تک اس کی دلیل پہنچتی ہے اورتب ہمیں معلوم ہوتاہے کہ کسی مسئلہ میں اس کی دلیل کیاہے اورکبھی ہم اس کی دلیل کونہیں جان سکتے۔
اس کے بعد ابن تیمیہ نے پھریہ بات کہی ہے کہ یہ عذر مجتہدین کا ہے لیکن جوحاضر وقت ہے اس پر فرض ہے کہ وہ اس حدیث پر جوصحیح ثابت ہوچکی ہو اس پر عمل کرے۔
لیکن اس کامتحمل بھی وہی شخص ہوسکتاہے جو کم ازکم اجتہاد فی المذہب یاقرآن وحدٰیث میں گہرارسوخ رکھتاہو۔ورنہ ہرایرے غیرے کے ہاتھ میں یہ اختیار تھمادینادین کوضائع اوربرباد کرنے کے مترادف ہوگا۔اورقبل ازیں شیخ شاطبی کا قول کیاہے وہ نگاہوں سے گزرچکا۔
اب ہم کچھ ایسی مثالیں پیش کریں گے جس سے پتہ چلے گاکہ اگرکسی جگہ ظاہری طورپر حدیث کی مخالفت کی جارہی ہو تب بھی اس کو مخالفت حدیث کا نام دیناصحیح نہیں ہے کیونکہ ہوسکتاہے کہ اس حدیث سے بظاہر جومطلب سمجھ میں آرہاہے اشارۃ النص اوردلالۃ النص اس کے خلاف ہو۔اور جوشخص ظاہر حدیث کے خلاف عمل کررہاہے درحقیقت وہی منشائے رسول پرعمل کررہاہو۔
بخاری شریف کی مشہور حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو قبیلہ بنی قریظہ بھیجااوران کو تاکید کی ۔

لایصلین احدن العصر الافی بنی قریظۃ فادرک بعضھم العصر فی الطریق فقال بعضھم لانصلی حتی ناتیھا وقال بعضھم بل نصلی لم یردمناذالک فذکر ذلک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فلم یعنف واحدا منھم 

بخاری2/519
تم میں سے کوئی بھی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں جاکر۔چنانچہ راستہ میں ان میں سے بعض پر عصر کی نماز کا وقت آگیا ۔ان میں سے بعض نے کہاکہ ہم توبنی قریظہ ہی میں جاکر نماز پرھیں گے۔ اوربعض دیگر نے کہاکہ ہم تونماز یہاں ہی پڑھیں گے کیونکہ آپ کا مطلب یہ نہیں تھا(ان کے کہنے کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں ہم عصر تک بنی قریظہ پہنچ سکتے تھے اسی لئے آپ نے یہ فرمایاہے۔انہوں نے نماز پرھ لی۔ جب آپ کے سامنے ذکر ہوا توآپ نے کسی کوملامت نہ کی۔
حافظ ابن قیم زادالمعاد میں اس حدیث کی شرح میں ان لوگوں کو جنہوں نے وقت پرعصر کی نماز پڑھ لی ان کو فقیہہ گردانتے ہیں اوردوہرے اجر کا مستحق قراردیتے ہیں۔
حالانکہ بظاہر دیکھاجائے اورعربی زبان سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس میں کس قدر تاکید ہے اس کے باوجود ایک گروہ منشائے رسول پر نظررکھ کر ظاہر الفاظ کے خلاف عمل کرتاہے ۔اوردررباررسالت سے ایساکرنے والوں کی بھی تصدیق ہوتی ہے اوران پر کوئی انکار نہیں ہوتاہے۔
اس حدیث کی شرح میں حافظ سہیلیؒ کہتے ہیں۔

فی ہذاالحدیث من الفقہ انہ لایعاب علی من اخذبظاہرالحدیث اوآیۃ وعلی من استنبط من النص معنی یخصصہ

(فتح الباری پارہ 16،ص67)
اس حدیث سے جو فقہ حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے کسی حدیث یاآیت کے ظاہر پرعمل کیاتوان پر کوئی عیب نہیں اوران لوگوں پربھی کوئی عیب نہیں جنہوں نے نص سے کوئی معنی مستنبط کیاجواس کو مخصص کرتاہو۔
آنحضرت کی لونڈی حضرت ماریہ کو منافقین کے ایک گروہ نے ان کے چچازاد بھائی حضرت مابورؓ سے متہم کردیا۔یہ خبر اس انداز سے پھیلی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی اس کاخبر کا یقین آگیااورکچھ قرائن وشواہد بھی ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے آپ کایقین بے جانہ تھا۔ آپ نے غیرت میں آ کرحضرت علیؓ سے فرمایا کہ مابور کو جہاں ملے جاکر قتل کردو۔آپ کے الفاظ یہ ہیں۔
اذھب فاضرب عنقہ (مسلم 2/39)جائوجاکر اس کی گردن اڑادے۔
حضرت علیؓ گئے تو دیکھاکہ وہ ایک کنویں میں پائوں لٹکائے ہوئے بیٹھاہے ،اس کو جووہاں سے کھینچاتو اس کشمکش میں اس کا تہہ بند کھل گیاحضرت علیؓ نے جودیکھاتومعلوم ہواکہ
لم یخلق اللہ لہ ماللرجال(مستدرک4/39)اللہ نے فطرتاًاس کا آلہ ہی پیدانہیں کیا
امام مسلم کے الفاظ یہ ہیں۔
وانہ لمجبوب مالہ ذکر(مسلم)وہ مجبوب ونامرد تھا اوراس کا سرے سے آلہ تناسل ہی نہ تھا۔
حضرت علیؓ کوباوجود اس کے کہ درباررسالت سے قتل کا قطعی حکم مل چکاتھا۔مگرآپ نے جب محسوس کیاکہ قتل کی جوعلت اورمنشاء تھی وہ یہاں سرے سے مفقود ہے تو وہ قتل سے باز رہے اورآنحضرت سے جاکر پوراماجراعرض کیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سن کر فرمایا۔
الشاھد یری مالایری الغائب(مسند احمد)حاضرجوکچھ دیکھتاہے وہ غائب نہیں دیکھ سکتا۔
ظاہر ہے کہ حضرت علیؓ نے منشائے رسول کو سمجھ کر آنحضرت کے ظاہری الفاظ کے خلاف عمل کیا اوراس کوقتل نہ کیا بلکہ چھوڑدیا۔کیااس کو کوئی مخالفت حدیث کاالزام دے سکتاہے ۔اگرکسی کا جواب ہاں میں ہوتو وہ صرف فاترالعقل ہی ہوسکتاہے۔
ایساہی سمجھناچاہئے کہ مجتہدین اورائمہ کرام رحمہم اللہ نے اگرکہیں حدیث کے ظاہر الفاظ کے خلاف عمل کیاہے توانہوں نے منشائے رسول کو ہم سے بہتر سمجھاہے اورکوئی اس میں اشارۃ النص اوردلالۃ النص ہوگاجس کی بنیاد پر انہوں نے ظاہری الفاظ پر عمل سے گریز کیاہے۔
لیجئے حضرت علیؓ کی ہی ایک اورروایت
وہ فرماتے ہیں

فان امۃ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زنت فامرنی ان اجلدھا فاذا ھی حدیث عہد بنفاس فخشیت ان اناجلدتہا ان اقتلہافذکرت ذلک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال احسنت (مسلم2/71

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نوکرانی نے زناکیا ۔مجھے آپ نے فرمایاکہ جاکر اس کو کوڑے لگادو۔ میں گیاتودیکھاکہ اس کے ہاں بچہ پیداہواہے مجھے یہ خوف ہواکہ اگرمیں نے اس کو سزادی توکہیں وہ مرہی نہ جائے۔میں بغیرسزادیئے واپس آپ کی خدمت میں پہنچا اورساراقصہ سنادیا آپ نے فرمایاتونے اچھاکیاہے۔
اس حدیث میں غورکیجئے ۔آپ کا ظاہری حکم تویہ تھاکہ جاؤاورجاکر حد شرعی قائم کرو ۔مگرحضرت علیؓ نے اپنے تفقہ اوراجتہاد سے یہ سمجھاکہ اس پر عمل کیاتو جس پر حد قائم کیاجارہاہے وہ مرسکتی ہے اوراس سے نوزائیدہ بے یارومددگار اورماں کی ممتا وشفقت سے محروم ہوجائے گا۔
حضرت علیؓ نے ظاہر الفاظ کے مطابق عمل نہیں کیا اوراس پردرباررسالت سے تصدیق ملتی ہے کہ تونے اچھاکیا۔اب اگرائمہ مجتہدین میں سے کوئی ایک اگرکسی حدیث کے ظاہر الفاظ پر عمل نہ کرے اوراس کے کسی معنی خاص کردے یامشروط کردے توکیاوہ مخالفت حدیث کے زمرہ میں آتاہے۔
یہاں ہم امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی ہی ایک بات پیش کردیتے ہیں جو امام ابویوسفؓ نے اپنی مایہ ناز اورشہرہ آفاق کتاب "کتاب الخراج"میں نقل کیاہے ۔وہ کہتے ہیں۔
مشہور حدیث ہے کہ بنجر زمین کو جوآباد کرے زمین اس کی ہے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ زمین اس کی تب ہوگی جب وہ حاکم سے اجازت لے۔
اس پر حضرت امام ابویوسف لکھتے ہیں کہ ابوحنیفہؓ نے حدیث کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کواجازت حاکم سے اس لئے مشروط کردیاتاکہ کوئی جھگڑانہ ہو اورفساد ونزاع کی نوبت نہ آئے۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ زمین کی خریدوفروخت صرف بیچنے اورخریدنے والے کے درمیان ہونی چاہئے۔لیکن پوری دنیا میں یہ نظام اورقانون رائج ہے کہ حکومت کو آگاہ کرکے رجسٹری کرنی پڑتی ہے۔کیونکہ تاکہ نزاع کاسدباب کیاجاسکے۔منشائے رسول سے ناواقفوں نے اس کوبھی امام صاحب کے مخالفت حدیث میں شمار کرلیاہے۔
لیجئے بات اقضی الصحابہ یعنی کارقضاء میں سب سے ممتاز صحابی رسول ،دامادرسول اورشیرخدا حضرت علیؓ کی آجاتی ہے۔ صلح حدیبیہ کاواقعہ مشہور ہے تمام لوگ اس سے واقف ہی ہوں گے۔حضرت صلح نامہ مرتب کیاجارہاہے تولکھاگیا۔ھذا ماقاضی علیہ محمد رسول اللہ یہ وہ عہد نامہ ہے جو محمد رسول الہ نے فریق ثانی سے طے کیاہے۔اس پر مشرکین نے اعتراض کیاکہ رسول اللہ کے الفاظ مٹائے جائیں کیونکہ ہم اگر ان کو اللہ کارسول مانتے تو یہ ساراجھگڑاپھر کاہے کاہوتا۔اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو حکم دیا۔امح رسول اللہ،رسول اللہ کے الفاظ مٹادو۔

اب حضرت علیؓ کا جواب سنئے۔قال لاواللہ الامحوک ابداخدا کی قسم میں توکبھی نہ مٹائوں گا۔(بخاری جلد

1/372)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے ظاہری الفاظ کیاہیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم حکم دے رہے ہیں کہ الفاظ مٹادو،حضرت علیؓ کہہ رہے ہیں کہ خدا کی قسم کبھی نہ مٹاؤں گا۔اگرکوئی ظاہر پرست اورحدیث کے ظاہر ی مطلب کو ہی سب کچھ سمجھن والاہوتووہ تویہی کہے گانہ حضرت علیؓ نے حدیث کی بلکہ آنحضرت کے حکم کی مخالفت کی۔
لیکن انسان اگرعقل وشعور رکھتاہوتووہ جان لے گاکہ اس ظاہری مخالفت کے پیچھے کتنی عظیم جان نثار اورکس قدر محبت چھپی ہوئی ہے۔
اس حدیث کی شرح میں مشہور محدث اورفقیہہ امام نووی لکھتے ہیں
یہ کارروائی جو حضرت علیؓ نے کی ہے ادب اوراستحباب کے باب سے ہے کیونکہ وہ آپ کے قول سے یہی سمجھتے تھے کہ اس نوشت کا مٹاناخود علیؓ پر لازم نہیں اوراسی لئے آپ نے حضرت علیؓ پر کوئی گرفت نہیں کی۔اگران کیلئے بدست خود مٹاناضروری ہوتاتونہ حضرت علیؓ کیلئے اس حکم کا ترک جائز ہوتا اورنہ آپ ان کو اس مخالفت پر برقراررہنے دیتے۔(شرح مسلم2/104)
علاوہ ازیں آپ دیکھیں کہ حدیث میں موت کی خواہش سے ممانعت کی گئی ہے لیکن شراح حدیث اس کو دنیوی ضرر سے مقید کرتے ہیں۔حالانکہ ظاہر حدیث میں اس کی جانب کوئی اشارہ نہیں ہے۔ بڑے بڑے بزرگان دین اورائمہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے موت کی تمناکی ۔حضرت علیؓ جب کوفہ والوں کی بدعہدہ اورعدم اطاعت سے تنگ آگئے توانہوں نےموت کی دعاکی جیساکہ ابن کثیر رحمتہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں بیان کیاہے۔ پھر جب امام بخاری ابناء وقت کی روش سے عاجز آگئے اورمستقل دربدری کا شکار ہوناپڑاتوانہوں نے بھی موت کی دعاکی ۔چنانچہ امام عبدالقدوس بن عبدالجبار سمرقندی بیان کرتے ہیں۔
فسمعتہ لیلۃ من اللیالی وقد فرغ من صلوٰۃ الیل یدعو ویقول فی دعائہ اللھم انہ ضاقت علی الارض بمارحبت فاقبضنی الیک(تاریخ بغداد2/34،طبقات الشافعیۃ الکبر2/14)
ایک رات میں نے انکو دعاکرتے ہوئے سنا "اے اللہ زمین باوجود کشادہ ہونے کے مجھ پر تنگ ہوگئی ہے۔سوتو مجھے اپنی طرف اٹھالے۔
آپ اگرصرف ظاہر پرست ہیں تویقیناامام بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان پر مخالفت حدیث کا الزام لگادیں گے لیکن اگرخدا نے تفقہ اورحدیث کی گہرائی اورگیرائی اورتہہ میں چھپے درمکنون کو سمجھنے کی لیاقت بخشی ہے توسمجھ جائیں گے کہ امام بخاری کایہ طرز عمل کسی بھی لحاظ سے خلاف حدیث نہیں ہے۔
چنانچہ حافظ ابن کثیر اس حدیث(تکلیف وپریشانی وجہ سے موت کی دعانہ کرنے کی)کوبیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس سے مراد بدنی اوردنیاوی ضرر ہے۔اگرکوئی دینی آفت اورپریشانی ہو اوراس میں کوئی موت کی تمناکرے تو وہ درست اورجائز ہے۔(البدایہ والنہایہ1/19
اسی طرح دیکھئے ۔ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔البیعان بالخیار مالم یتفرقا۔خریدورفروخت کرنے والوں کو اپناسودا رد کرنے کا اختیار ہے جب تک کہ وہ متفرق نہ ہوجائیں۔کچھ ائمہ نے اس تفرق سے تفرق بالابدان مراد لیاہے کہ دونوں کی مجلس ختم ہوجائے اوردونوں ایک دوسرے سے جسمانی لحاظ سے ہی الگ ہوجائیں۔ جب کہ امام مالک اورامام ابوحنیفہ نے مالم یتفرقا (جب تک وہ دونوں الگ نہ ہوجائیں )سے تفرق اقوال مراد لیاہے یعنی بیع وشراء کی بات ختم کرکے کوئی دوسری بات نہ کرنے لگیں تب تک ان کو سودا رد کرنے کا اختیار ہوگا۔
کچھ حضرات اسی حقیقت کونہ سمجھنے کی بناء پر امام مالک اورامام ابوحنیفہ پر مخالفت حدیث کا الزام لگادیا۔بلکہ ابن ابی ذئب نے تویہاں تک کہہ دیاکہ امام مالک سے توبہ کرایاجائے اوراگر وہ توبہ نہ کریں تو ان کو قتل کردیاجائے۔
اورایک مشہور محدث نے امام ابوحنیفہ کے اس مراد اورمفہوم کو مخالفت حدیث کے معنی میں لیااورجب امام ابوحنیفہ نے اپنی بات کی وضاحت اس طور پر کی کہ اگر دونوں کشتی میں ہوں تو پھرتفرق بالابدان کیسے مراد ہوسکتاہے اس کو انہوں نے حدیث کو رد کرنے کے معنی میں مراد لیااورامام ابوحنیفہ پر حدیث مسترد کرنے کی تہمت لگائی ۔
(اثرالحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء)
جب کہ امام احمد نے اس حدیث میں باوجود اس کے کہ ان کا قول تفرقا سے تفرق بالابدان ہی کے مراد کی جانب ہے۔انہوں نے امام مالک کی جانب سے یہ کہتے ہوئے عذر پیش کیا۔
("مالک لم یرد الحدیث ولکن تاولہ علیٰ غیرذالک"( العلل ومعرفۃالرجال 1/228
امام مالک نے حدیث کو رد نہیں کیالیکن اس کی تاویل(تفسیر)دوسری کی۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے صاف طورپر کہاکہ امام مالک نے حدیث کو رد نہیں کیاہے۔
حالانکہ آج کا دور جو انٹرنیٹ اورموبائل کمیونیکشن کا ہے خریدوفروخت بھی آن لائن ہوتاہے۔اب کوئی بتائے کہ ا س میں تفرق بالابدان کس طورپر ممکن ہے۔
منشائے رسول کو نہ سمجھنے اورظاہری الفاظ پر جمے رہنے کی ایک نمایاں مثال ظاہریہ حضرات کی ہے۔ جس میں نمایاں امام داؤد ظاہری اورپھر اس مذہب کو دوبارہ مشتہر کرنے والے ابن حزم ظاہری ہیں۔
مشہور حدیث ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے
لایبولن احدکم فی الماء الدائم ثم یغتسل منہ(مسلم)
تم میں سے کوئی ٹہرے پانی میں پیشاب نہ کرے۔ہوسکتاہے کہ پھر اس سے (کسی ضرورت کی بناء پر)غسل کرے۔
تمام علماء وفقہاء اورہرسلیم الطبع شخص یہی کہے گاکہ اس ارشاد رسول کامفہوم پانی کو گندی اورنجاست سےبچانے کی ہے۔ چاہے وہ کسی طرح سے اس پانی میں جائے ۔بایں طورکہ کوئی پانی کے قریب پیشاب کرے اورپیشاب بہہ کر اس پانی میں چلاجائے۔یاکوئی کسی برتن میں پیشاب کرکے اس پانی میں ڈال دے۔اوریہی حکم بڑے استنجاء کا بھی ہوگا۔
لیکن ظاہریہ حضرات کیاکہتے ہیں وہ پڑھئے۔
حکی عن داؤد بن علی الظاہری ان النہی یختص ببول الانسان بنفسہ وان الغائط لیس کالبول وکذا اذابال فی اناء ثم صبہ فی الماء اوبال بقرب الماء
داؤد بن علی سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں ممانعت صرف انسان کے پیشاب سے مخصوص ہے اورپاخانہ پیشاب کے حکم میں نہیں ہے(یعنی کوئی اس پانی میں بڑااستنجاء کرے توپانی ناپاک نہیں ہوگا)اوراسی طرح جب کوئی شخص برتن میں پیشاب کرکے پانی میں ڈال دے یاپانی کے قریب پیشاب کرے اور وہ بہہ کر پانی میں چلاجائے توکوئی حرج نہیں۔
اس پر امام نووی نے سخت اعتراض کرتے ہوئے لکھاہے۔
(وھذاالذی ذھب الیہ خلاف الاجماع وھو من اقبح مانقل عنہ فی الجمود علی الظاہر واللہ اعلم (شرح مسلم 1/138
داؤد ظاہری کا یہ مذہب اجماع کے خلاف ہے اورجمود علی الظاہر کی بدترین مثال ہے۔
اس پر امام ابن دقیق العید نے بھی سخت اعتراض کیاہے۔دیکھئے احکام الاحکام1/8)
مثالیں اوربھی ہیں۔
سنن فطرت یعنی فطری طورپر جوانسان کو کرناچاہئے اس میں سے ایک بغل کے بالوں کو ختم کرنابھی ہے۔حدیث کے اندر اس کے بارے میں الفاظ آئے ہیں۔
("نتف الابط"(بخاری2/875،مسلم1/128
نتف کے معنی اکھاڑنے اورموچنے کے ہیں۔تو حدیث کے لحاظ سے اورظاہری مطلب تویہ ہے کہ ہرمسلمان جو بغل کے بال بلیڈ سے مونڈتاہے وہ حدیث کی اورارشاد رسول کی مخالفت کرتاہے اب بتائیے کہ کتنے مسلمان مخالفت حدیث کے الزام سے بچیں گے۔ بجائے خود وہ لوگ جو عمل بالحدیث کے مدعی ہیں ان میں کتنے لوگ ایسے ملیں گے جو اس حدیث کے ظاہرپرعمل کرتے ہیں۔
خود امام شافعیؓ فرماتے ہیں۔
(علمت ان السنۃ النتف ولکن لااقوی علی الوجع(شرح مسلم جلد1/129
میں جانتاہوں کہ سنت بغل کے بالوں کا اکھاڑناہی ہے لیکن میں درد برداشت نہیں کرسکتا۔فقہاء نے یہ طے کیاہے کہ رسول پاک کا منشاء بغل کے بالوں کا صاف کرنا ہے خواہ وہ نتف کے ذریعہ ہو ،بلیڈ یاچونا کے ذریعہ۔جیسے بھی ہو یہ مقصد حاصل کیاجائے۔اس میں شک نہیں کہ نتف کے دیگر طریقوں پر ترجیح اورافضیلت حاصل ہے۔لیکن بلیڈ یادوسرے طریقوں کو کام میں لانے والوں کو کوئی مخالفت حدیث کا الزام اگردیتاہے تواپنے عقل وفہم کی محدودیت کو ظاہر کررہاہے۔
مشہور حدیث جو استنجاء کے وقت رخ کس طرح ہوناچاہئے حدیث میں آتاہے
شرقوا اوغربوا(بخاری1/26)
مشرق یامغرب کی طرف رخ کرلو۔لیکن دیکھئے ہم سبھی برصغیر کے رہنے والے اپنے بیت الخلاء کا رخ جنوب وشمال کرتے ہیں۔کیایہ حدیث کی مخالفت نہیں ہے۔
اگرکوئی کم فہم ہوگاتویہی سمجھے گا لیکن جسے خدا نے عقل دیاہے وہ جان لے گاکہ اس ارشاد رسول کا پس منظرکیاہے اورمنشائے رسول کیاہے۔
دراصل یہ حکم اہل مدینہ کو اوران کے ساتھ ایسے لوگوں کو دیاگیاتھاجن کا قبلہ جنوب یاشمال میں پڑتاہے توان کو کہاگیاہے استنجاء کے وقت وہ اپنارخ مغرب یامشرق کی طرف کرلیں۔یعنی اصل مقصد قبلہ کااحترام ہے۔
اب ہم لوگ جو ہندوستان وپاکستان اوربنگلہ دیش یاوہ ممالک جن کاقبلہ مغرب میں پڑتاہے وہ اس حدیث کے ظاہر پر عمل کریں گے تو بتائیے یہ منشائے رسول کی خلاف ورزی ہوگی یانہیں۔توپتہ چلاکبھی ظاہر حدیث پر عمل کرنامنشائے رسول کی خلاف ورزی کی زمرے میں آتاہے اورحدیث پر عمل تبھی ہوسکتاہے جب حدیث کے ظاہر کو چھوڑتے ہوئے اصل مقصد اورروح شریعت کے مطابق عمل کیاجائے۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے امت نے ہردور میں مقاصد شریعت کا خیال رکھاہے اورظاہر پر جمود سے بچنے کی ترغیب دی ہے۔ اسی مقصد کیلئے علامہ شاطبی نے المواقفقات لکھی اورحضرت شاہ ولی اللہ نے اسراردین کے فہم کو عام کرنے کیلئے حجۃ اللہ البالغۃ اوراؒلخیر الکثیر جیسی بے مثال کتابیں تالیف کیں۔
ظاہر پرجمود ہمیشہ سے نقصان دہ ہوتاآیاہے۔اس کے نقصان کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ قرافی لکھتے ہیں۔
(الجمود علی المنقولات ابداضلال فی الدین وجھل بمقاصد العلماء المسلمین والسلف الماضین(اعلام الموقعین 2/15
منقولات پر ہمیشہ جمود اختیار کرنا دین میں گمراہی کا پیش خیمہ ہے اورعلماء مسلمین اوراسلاف کے مقاصد شرعیہ کے فہم سے جہالت کا ثبوت ہے۔

1 comments:

ibneusman نے لکھا ہے کہ

اچھا تحقیقی مضمون ہے ،

آج كل عموما كتب ميں صرف اکابر کی نقول پرہی اکتفا کرتے ہیں ،
ضرور نقل کرنا چاہیے لیکن اب کتب کی فراوانی ہے ، معلومات کا اضافہ بھی کرنا چاہیے
اس مضمون میں کچھ ایسا ہے
اللہ سب کو دین و دنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے
آمين
ابن عثمان

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔