Pages

Tuesday 29 January 2013

قابل اورباصلاحیت شاگرد

3:قابل اورباصلاحیت شاگرد

حقیقت یہ ہے کہ شخصیت کتنی بھی عظیم کیوں نہ ہو لیکن تاریخی طورپر اس کانام اورکام جاری رہنے کیلئے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جواپنی ذات کی قربانی دے کر اپنے استاد یاتحریک کے موسس کے کام کو آگے بڑھاسکیں۔ایسے شاگردوں کاملنااورایسے افراد کا تحریک سے جڑنامحض فضل ربانی اورعطائے ایزدی ہے۔ ورنہ تاریخ کی کتنی ہی نامور ہستیاں ایسی ہیں جوباوجود علم وفضل کا پہاڑ ہونے کے محض اس لئے صرف کتابوں میں دفن ہوکر رہ گئی کہ ان کے بعد انکے کام کوآگے بڑھانے والے مخلص شاگرددستیاب نہ ہوئے ۔یاان کے شاگردان کے علمی امانت کے لائق امین نہ بن سکے۔
حضرت لیث بن سعد علم حدیث وفقہ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ مجتہد ہیں۔مصر میں ان کا مذہب بھی ایک عرصے تک رائج رہا۔ان کی فقاہت کی تعریف موافق مخالف سبھی نے کی ہے وہ امام معاصر کے ہم عصر تھے۔ ان دونوں میں بعض امور کے تعلق سے اختلاف بھی تھاجس پر دونوں میں مشہور خط وکتابت بھی ہوئی جس کو پڑھ کر آج بھی آنکھوں میں ٹھنڈک اترتی ہے اوردل کوسکون ملتاہے کہ ہمارے اسلاف اختلاف میں بھی کتنے مہذب اورشائستہ طریقہ کاراختیار کرتے تھے۔
لیث بن سعد کے بارے میں امام شافعی کہتے ہیں
الليث أفقه من مالك إلا أن أصحابه لم يقوموا به
(طبقات الفقہاء 78،تاریخ دمشق لابن عساکر50/358،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال24/275،سیراعلام النبلاء7/216،الوافی بالوفیات24/312،تہذیب التہذیب8/463،مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الآثار2/504)

یہ دیکھئے امام شافعی کااعتراف کہ لیث امام مالک سے زیادہ فقیہہ تھے۔انہوں نے امام مالک کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیاتھااوران کے بڑے قدرشناس تھے کہتے ہیں کہ جب علماء کا ذکر ہوتوامام مالک ستاروں کے مانند ہیں۔لیکن فقہی تقابل میں انہوں نے امام مالک پر لیث بن سعد کو ترجیح دی ۔اوراس کے ساتھ ہی ایک چھپے ہوئے سوال کاجواب بھی دے دیا۔
جب لیث بن سعد مصری زیادہ فقیہہ ہیں توپھران کو وہ شہرت وہ مقام وہ متعبین کی کثرت کیوں نصیب نہ ہوئی جوامام مالک کاخاصہ بنی تواس کا جواب امام شافعی یہ دیتے ہیں کہ
أن أصحابه لم يقوموا به
کہ ان کے شاگردان کے کام اورمشن کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے اس وجہ سے ان کا علم اوران کی فقاہت ضائع چلی گئی اوران کانام اورکام اورکارنامہ گمنامی کی نذر ہوگیا۔
امام ابوحنیفہؓ کو اللہ نے ایسے باصلاحیت مخلص اورمحبت کرنے والے شاگردوں سے نوازاجنہوں نے اپنے استاد کے منہج کو اپنامنہج بنایااوراپنے استاد کے علمی کارنامہ کو دنیابھر میں مشتہر کیا۔انہوں نے اپنے استاد سے بجاطورپر علمی اختلاف بھی کیا،استاد کے دلائل اورنظریہ پر تنقید بھی کی لیکن اسی کے ساتھ استاد کی ذات سے چمٹے رہے۔متصل رہے۔ ان کو چھوڑانہیں ان سے جدائی اختیار نہیں کی۔
یوں توامام ابوحنیفہ کے شاگردوں کی تعداد تقریباً700تک پہنچتی ہےلیکن جوشاگردان سے بطورخاص وابستہ رہے وہ ہیں۔
امام ابویوسف،امام محمد بن الحسن،امام زفر،امام حسن بن زیاد
امام ابویوسف علیہ الرحمہ نے جب دیکھاکہ اوزاعی نے امام ابوحنیفہ کے سیر کے مسائل پر تنقید کی ہے توانہوں نے اس کا مدلل جواب لکھاجوالردعلی الاوزاعی کے نام سے مشہور ہے۔اسی طرح انہوں نے اپنے استاد کی مرویات کو کتاب الآثار کے نام سے جمع کیا۔ اسی طرح اپنے سابق استاد ابن بی لیلی اورامام ابوحنیفہ کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف کو دلائل کے ساتھ واضح کیااوراپنارجحان بھی بتایا۔
امام محمد نے استاد کے مسلک اورمنہج پر کتابیں لکھیں۔جوظاہرالروایۃ کے نام سے مشہور ہے۔اہل عراق اوراہل مدینہ کے اختلافات پر الحجۃ علی اہل المدینہ لکھی اوراس کے علاوہ دیگر کتابیں لکھ کر استاد کے نام اورکام کوآگے بڑھایا۔
امام زفر نے اہل بصرہ کی اہل کوفہ سے عداوت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ سے برگشتگی کو حکمت سے دورکیااوراہل بصرہ کو بھی آپ کا محب ومطیع اورفرمانبرداربنادیا۔

امام ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔

"زفربصرہ کے قاضی بنائے گئے تو انہوں نے فرمایاکہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل بصرہ اورہمارے مابین حسد وعداوت پائی جاتی ہے۔لہذا آپ کا سلامت بچ نکلنادشوار ہے۔جب بصرہ میں قاضی مقرر ہوکر آئے تو اہل علم جمع ہوروزانہ آپ سے فقہی مسائل میں مناظرہ کیاکرتے تھے۔جب ان میں قبولیت اورحسن ظن کا رجحان دیکھتے تو کہتے یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اہل بصرہ متعجب ہوکر پوچھتے کیاابوحنیفہؒ ایساکہہ سکتے ہیں امام زفرجواب دیتے جی ہاں اوراس سے بھی زیادہ۔

اس کے بعد تومعمول ساہوگیاکہ جب بھی زفراہل بصرہ کا رجحان تسلیم وانقیاد دیکھتوکہتے کہ یہ ابوحنیفہ کاقول ہے اس سے اہل بصرہ اورمتعجب ہوتے چنانچہ امام زفر کااہل بصرہ سے یہی رویہ رہا یہاں تک کہ بغض وعداوت چھوڑ کر وہ امام صاحب کے معتقد ہوگئے ۔پہلے برابھلاکہتے تھے اب رطب اللسان رہنے لگے۔
(الانتقاءلابن عبدالبر)
عبدالبرکے اس بیان میں یہ بات غلط ہے کہ امام زفر بصرہ کے قاضی بناکر بھیجے گئے تھے بلکہ جب ان کو قاضی بنانے کا فرمان صادر ہواتو انہوں نے اپناگھر منہدم کردیااورروپوش ہوگئے۔بصرہ وہ اپنے بھائی کے میراث کے سلسلہ میں گئے تھے۔ اہل بصرہ کوان سے اتنی عقیدت ہوگئی کہ انہوں نے پھران کو بصرہ سے باہر جانے نہیں دیا۔علامہ کوثری لمحات النظرفی سیرۃ الامام زفر میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔(دیکھئے ص25)
مغرب میں امام ابوحنیفہ کے مذہب اورمسلک کوپھیلانے والے اسد بن فرات ہیں۔اسد بن فرات نے امام مالک سے بھی تحصیل علم کیاتھااوراسی کے ساتھ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے کے خرمن علم سے بھی خوشہ چینی کی تھی۔ ان کا رجحان احناف کی جانب زیادہ تھاانہوں نے مغرب میں فقہ حنفی کو پھیلایا۔(امام ابوحنیفہ مصنف ابوزہرہ ص757)

فقہ حنفی کوپھیلانے سے کسی کو یہ شبہ نہیں ہوناچاہئے کہ وہ لوگوں کو اس کی تلقین کرتے تھے کہ فلاں مسلک چھوڑدو اورحنفی بن جاؤجیساکہ آج کل غیرمقلدین  کرتے ہیں کہ وہ مختلف حیلے بہانے سے لوگوں کوسلفی بناتے ہیں۔ بات یہ ہوتی تھی کہ لوگ مسائل پوچھنے آتے تھے وہ جواب دیتے ہیں یہ جوابات زیادہ تر فقہ حنفی سے ماخوذ ہوتے تھے اس طرح فقہ حنفی رواج پایانہ کہ باقاعدہ اوردانستہ مسلک کی نشرواشاعت کی جاتی تھی۔
امام حسن بن زیاد نے مختلف موضوعات پر خصوصاقضاء کے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھ کر اس موضوع کے خس وخاشاک کو صاف کیااوربعد والوں کیلئے راہ ہموار کی۔

پھران چراغوں سے نئے چراغ جلے اوران چراغوں نے مزید چراغ جلائے اورپوری دنیافقہ حنفی سے منور ہوگئی اوراس کی ضیاء پاشیوں نے پوری دنیا کو اپنے احاطہ میں لے لیا۔

بات صرف ان چاروں کی ہی نہیں ہے بلکہ دیگر افراد کی بھی ہے جوفقہ حنفی سے جڑے رہے۔مثلاعبداللہ بن المبارک کی ذات گرامی کی لے لیں انہوں نے بھی فقہ حنفی کی خدمت کی ہے اورامام ابوحنیفہ کے مسائل پر مبنی کتاب لکھی ہے۔اس سلسلے میں جب ان سے پوچھاگیاکہ آپ نے امام ابوحنیفہ کے مسائل  پرکتاب لکھی ہے لیکن امام مالک کے مسائل پر کتاب نہیں لکھی توعبداللہ بن مبارک نے جواب دیاکہ میں اس کو علم نہیں سمجھتا۔
سَلَمَةَ بْنَ سُلَيْمَانَ يَقُولُ: قُلْتُ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: وَضَعْتَ مِنْ رَأْيِ أَبِي حَنِيفَةَ وَلَمْ تَضَعْ مِنْ رَأْيِ مَالِكٍ قَالَ: لَمْ أَرَهْ عَلَمًا
(جامع بیان العلم وفضلہ2/1107)
اس حوالہ سے مقصود امام مالک کی تنقیص شان نہیں ۔بلکہ یہ مراد ہے کہ فقہ حنفی کی خدمت کرنے والوں میں سے ایک عبداللہ بن المبارک ہیں۔
شیخ ابوزہرہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تحت لکھتے ہیں۔
جب سیاسی قوت کمزور پڑگئی تو وہ علماء کی ہی جدوجہد تھی جس نے مختلف امصاروبلاد میں فقہ حنفی کو زندہ رکھا۔اس ضمن مین علماء کی کوشش ایک نہج پر قائم نہیں رہی بلکہ رفتار زمانہ کے پیش نظر کبھی اس میں قوت رونماہوئی اورکبھی کمزوری واقع ہوئی۔جن بلاد وامصار مین علماء اثرورسوخ کے حامل تھے وہاں یہ مذہب پھلاپھولااوربرگ وبار لایالیکن جہاں علماء کمزورتھے وہاں مذہب بھی کمزورپڑگیا۔(حیات حضرت امام ابوحنیفہ756)

نوٹ:بعض محدثین نے کچھ ایسے حوالے جات پیش کئے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ آخر میں عبداللہ بن المبارک امام ابوحنیفہ سے متنفر ہوگئے تھے ۔لیکن یہ باتیں چند وجوہ کی بنیاد پر قابل اعتبار نہیں ہے۔انشاء اللہ ہم وقت فرصت اس پر کلام کریں گےاوربتائیں گے کہ اس میں کیاخلل ہے ؟

4: تصنیفی خدمات

اس کا تعلق اگرچہ ماقبل سے ہی ہے لیکن اس کے باوجود اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظرالگ سے ذکرکیاگیاہے۔کسی بھی مسلک اورمذہب کو تابندہ اورزندہ رکھنے میں تصنیفی خدمات بہت اہم کرداراداکرتی ہیں۔تصنیفی خدمات سے اندازہ ہوتاہے کہ کسی مذہب کاخدوخال کیاہے۔ اس کے نقوش کیاہیں۔ اس کی بنیاد اوراصول کیاہیں ۔اگرتصنیفی خدمات نہ ہوں اوراس کے جاننے والے فناء کے گھاٹ اترجائیں توپھریہ مذہب سرے سے نیست ونابود ہوجاتاہے ۔کسی مذہب کے دوام کیلئے دونوں چیزیں ضروری ہیں یعنی اس مذہب کے جاننے والے اوراس مذہب کی تصانیف۔

اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے بھی یہی نظام قائم کیاہے چنانچہ ایک جانب انبیاء اوررسولوں کو بھیجااوردوسری طرف صحائف اورکتب  بھی نازل فرمائیں ۔ کتابوں میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک کوئی ان کو عملی طورپر برت کرنہ بتائے سمجھنامشکل ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ محض تصنیفی خدمات یاپھر محض اس مذہب کے جانکار رہنے سے کسی مذہب کو دوام نصیب نہیں ہوتادونوں چیزوں کا ہوناضروری ہے۔
مذاہب اربعہ زندہ اورپایندہ ہیں تواس کی وجہ یہی ہے کہ ہردور میں اس مذہب کے علماء اورفقہاٗء بھی رہے ہیں اورانہوں نے تصنیفی خدمات کے ذریعہ پیش آمدہ واقعات اورحوادث میں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیاہے۔

محمد بن جریرالطبری،ابن حزم ظاہری کی کتابیں موجود ہیں لیکن چونکہ اس مذہب کے جاننے والے واقف کار علماء نہیں ہیں لہذا یہ مذہب فناء کے گھاٹ اترگیا۔

ابن خلدون اس تعلق سے لکھتے ہیں۔

آج ظاہریہ کامذہب بھی مٹ مٹاگیا کیونکہ اس کے امام ختم ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت سے طلبہ جوان کے مذاہب کامطالعہ کرناچاہتے ہیں اوران کتابوں سے ان کا فقہ اورمذہب سیکھناچاہتے ہیں وہ اپناوقت ضائع کرتے یہں اوراس سے جمہور کی مخالفت اوران کے مذہب سے انکار بھی لازم آتاہے ۔ہوسکتاہے کہ وہ اس مذہب کی وجہ سے بدعتیوں مین شمار کرلئے جاءیں کیونکہ وہ اساتذہ کی چابی کے بغیرکتابوں سے علم کو نقل کررہے ہیں۔
(مقدمہ ابن خلدون ص283)
ائمہ اربعہ میں سے ائمہ ثلاثہ کی تصانیف تومشہور ہیں۔لیکن امام ابوحنیفہ کی تصانیف کے تعلق سے تاریخی نقوش اتنے دھندلے ہیں کہ کچھ کہنامشکل ہے۔ویسے ماقبل کے مورخین نے اس تعلق سے کچھ کتابوں کے نام لئے ہیں تواس بناء پر کہاجاسکتاہے کہ امام ابوحنیفہ نے کچھ کتابوں کی تصنیف ضرورکی لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچ سکی جیساکہ دیگر علماء کے ساتھ بھی ہواہے ۔

ان کے شاگردوں نے جوکتابیں لکھیں ان مین سے کچھ ہم تک پہنچی ہیں اوربیشتر ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔
ان کے شاگردوں میں نمایاں نام امام ابویوسف کاہے۔ انہوں نے درج ذیل کتابیں لکھی ہیں۔ابن ندیم نے امام ابویوسف کی  تصانیف میں مندرجہ ذیل کتب کانام لکھاہے۔

كتاب الصلاة كتاب الزك كتاب الصيام كتاب الفرائض كتاب البيوع كتاب الحدود كتاب الوكالة كتاب الوصايا كتاب الصيد والذبائح كتاب الغصب والاستبراء ولأبي يوسف املاء رواه بشر بن الوليد القاضي يحتوي على ستة وثلثين كتابا مما فرعه أبو يوسف كتاب اختلاف الأمصار كتاب الرد على مالك بن أنس كتاب رسالته في الخراج إلى الرشيد كتاب الجوامع ألفه ليحيى بن خالد يحتوي على أربعين كتابا ذكر فيه اختلاف الناس والرأي المأخوذ به.
(الفہرست لابن ندیم 1/253)
اس فہرست میں ابن ندیم نے کتاب الردعلی مالک بن انس کانام لیاہے لیکن ایسالگتاہے کہ یاتوسبقت قلم سے ایساہوگیاہے صحیح نام ہوناچاہئے کتاب الرد علی سیرالاوزاعی۔

امام زفر کی کتابوں کا ابن ندیم نے کوئی تذکرہ نہیں کیاہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے بھی کچھ کتابیں لکھی ہیں۔ ابن ندیم نے امام زفر کے ترجمہ مین صرف اتنالکھ کر چھوڑدیاہے کہ ولہ من الکتب ان کی چند کتابیں ہیں۔ کون کون سی ہیں یہ نہیں بتایا۔

الفہرست کے محقق نے حاشیہ میں لکھاہے کہ ان کی ایک کتاب مجرد فی الفروع کے نام سے ہے۔اس کے علاوہ جیساکہ مولانا عبدالرشید نعمانی نے ثابت کیاہے کہ ان کی ایک اورکتاب کتاب الآثار کے نام سے ہے جس کاحاکم نے بھی ذکر کیاہے۔امام زفر کاانتقال 155ہجری میں ہوگیاتھایعنی اپنے استاد امام ابوحنیفہ کے انتقال کے محض5سال بعد۔لہذاان کی زیادہ تصانیف نہ ہوناکوئی مستبعد نہیں ہے۔

امام محمد بن الحسن کی درج ذیل کتابوں کاابن ندیم نے ذکر کیاہے۔

ولمحمد من الكتب في الأصول كتاب الصلاة كتاب الزكاة كتاب المناسك كتاب نوادر الصلاة كتاب النكاح كتاب الطلاق كتاب العتاق وأمهات الأولاد كتاب السلم والبيوع كتاب المضاربة الكبير كتاب المضاربة الصغير كتاب الاجارات الكبير كتاب الاجارات الصغير كتاب الصرف كتاب الرهن كتاب الشفعة كتاب الحيض كتاب المزارعة الكبير كتاب المزارعة الصغير كتاب المفاوضة وهي الشركة كتاب الوكالة كتاب العارية كتاب الوديعة كتاب الحوالة كتاب الكفالة كتاب الإقرار كتاب الدعوى والبينات كتاب الحيل كتاب المأذون الصغير كتاب مة كتاب الديات كتاب جنايات المدبر والمكاتب كتاب الولاء كتاب الشرب كتاب السرقة وقطاع الطريق كتاب الصيد والذبائح كتاب العتق في المرض كتاب العين والدين كتاب الرجوع عن الشهادات كتاب الوقوف والصدقات كتاب الغصب كتاب الدور كتاب الهبة والصدقات كتاب الأيمان والنذور والكفارات كتاب الوصايا كتاب حساب الوصايا كتاب الصلح والخنثي والمفقود كتاب اجتهاد الرأي كتاب الإكراه كتاب الاستحسان كتاب اللقيط كتاب اللقطة كتاب الآبق كتاب الجامع الصغير كتاب أصول الفقه ولمحمد كتاب يعرف بكتاب الحج يحتوي على كتب كثيرة كتاب الجامع الكبير كتاب أمالي محمد في الفقه وهي الكيسانيات كتاب الزيادات كتاب زيادة الزيادات كتاب التحري كتاب المعاقل كتاب الخصال كتاب الاجارات الكبير كتاب الرد على أهل المدينة كتاب نوادر محمد رواية بن رستم.
(الفہرست لابن ندیم 1/254)

حقیقت یہ ہے کہ امام محمد نے اپنی تصانیف کے ذریعہ ہی فقہ حنفی کا نام زندہ اورروشن رکھاہے اورانہی کی کتابیں فقہ حنفی کا دارومدار ہیں۔اگرکہاجائے کہ فقہ حنفی کو زندہ رکھنے میں ایک بڑاسبب اوراہم کردار امام محمد بن الحسن کی کتابوں اورتصنیفی خدمات کا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔

امام حسن بن زیاد لولوئی۔یہ بھی بڑے مرتبہ کے فقیہہ تھے۔یحیی بن آدم جوبڑے درجہ کے مجتہد ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر فقیہہ نہیں دیکھا۔ان کی تصنیفی بقول امام طحاوی درج ذہیں۔
قال الطحاوي وله من الكتب كتاب المجرد لأبي حنيفة روايته كتاب أدب القاضي كتاب الخصال كتاب معاني الإيمان كتاب النفقات كتاب الخراج كتاب الفرائض كتاب الوصايا.
(الفہرست لابن ندیم1/255)
پھراس کے بعد امام ابویوسف،امام محمد ،امام زیاد بن حسن کے شاگردوں اورپھران کے شاگردوں نے جوتصنیفی خدمات انجام دی ہیں ۔اس کیلئے توسفینہ چاہئے اس بحربیکراں کیلئے۔اوراس کے بعد بھی حالت یہی ہوگی۔ورق تمام ہوااورمدح باقی ہے۔



مشہورمورخ ابن خلدون لکھتے ہیں۔
ان کے(امام ابوحنیفہ) فقہ پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں اورشافعیوں سے مناظرہ کی مجلسیں بھی خوب گرم رہیں اوراختلافی مسائل میں انتہائی نفیس ومفید مذاکرات ہوئے اورانہوں نے گہرے وسنجیدہ نظریات پیش کئے۔(مقدمہ ابن خلدون ص625)

اصول فقہ کے باب میں ابن خلدون حنفیہ کی کاوشوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
پھر(امام شافعی کے بعد)اس پر فقہائے احناف نے کتابیں لکھیں اوران قواعد کی تحقیق کی اوران میں تفصیل سے گفتگو کی۔ اسی طرح اہل کلام نے بھی اس پر کتابیں لکھیں مگراس موضوع پر فقہاء کی کتابیں فقہ کیلئے زیادہ موزوں اورفروع کے مناسب ہیں کیونکہ وہ ہرجزئی مسئلہ میں کثرت سے امثلہ وشواہد پیش کرتے ہیں اورفقہی نکات پر مسائل اٹھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقہائے حنفیہ اس میں بڑے ماہر تھے ۔وہ فقہی نکات کے دریامین غوطہ لگاکر مقدوربھرمسائل فقہ سے ان قوانین کے موتی چن لیتے ہیں جیساکہ انہی کے امام میں سے ابوزید دبوسی کازمانہ آیاتوانہوں نے قیاس پر سب سے زیادہ لکھااوران بحثوں اورشرطوں کو تکمیل تک پہنچادیا جن کی قیاس مین ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی تکمیل سے اصول فقہ کی صنعت مکمل ہوگئی اوراس کے مسائل مرتب اورقواعد تیار ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حنفیہ بھی اس علم پر بہت سی کتابیں لکھیں ہیں۔پہلے علماء میں ابوزید دبوسی کی اورپچھلے علماء میں سیف الاسلام بزدوی کی بہترین کتاب ہے۔جو اس فن کے تمام مسائل کی جامع ہے۔ ابن ساعاتی حنفی نے کتاب الاحکام اوربزدودی کی کتاب کو ایک جگہ ترتیب سے جمع کردیااوراس کا نام البدائع رکھا۔اس کی ترتیب انتہائی بہترین ہے اوریہ بے حد نادرکتاب ہے۔اس زمانے کے علماء کے مطالعہ میں یہی رہتی ہے اوروہ اسی کے مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔بہت سے علمائے عجم نے اس کی شرحیں لکھی ہیں۔
(مقدمہ ابن خلدون 632)
جن کو اس تعلق سے زیادہ معلومات چاہئے وہ کشف الظنون،معجم المولفین ،المدخل الی مذھب الحنفی اوردیگر کتابوں کا مطالعہ کریں۔جس سے یہ حقیقت بخوبی کھل کر واضح ہوگی کہ علماء احناف نے تصنیف وتالیف اورپیش آمدہ مسائل میں لوگوں کی رہنمائی ہردور میں جاری رکھااوریہی وجہ ہے کہ امت کا ایک بڑاطبقہ فقہ حنفی سے وابستہ رہاہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔