Pages

Tuesday 29 January 2013

فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے حقیقی اسباب وعوامل

5: فقہ حنفی کی اپنی خصوصیات

دنیامیں کوئی چیز کبھی بھی محض خارجی سہارے کی بناء پر زندہ نہیں رہتی ۔اورجوچیز محض خارجی تاثیر کی بناء پر زندہ رہتی ہے وہ جلد ہی درگورہوجاتی ہے۔یہ اللہ کانظام اوراللہ کی سنت ہے۔جوبھی چیز دیر تک پایندہ اورتابندہ رہتی ہے  اس میں صالحیت کے ساتھ نافعیت کاہوناازحد ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نافع اورغیرنافع کا فرق اس طرح بیان فرمایاہے۔

فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (سورہ رعد)

سیلاب میں جھاگ اتناہوتاہے کہ پانی کہیں نظرنہیں آتاہرطرف جھاگ کی فرمانروائی ہوتی ہے لیکن جھاگ میں چونکہ نفع رسانی کی صلاحیت نہیں لہذا تھوڑے ہی عرصہ کے بعد جھاگ سمٹ کر ایک طرف ہوجاتاہے اورختم ہوجاتاہے اورپانی اپنی جگہ مدت دراز تک برقراررہ کرلوگوں کیلئے کارآمد ہوتاہے۔
سونے کو گلانے کیلئے کچھ دیگر چیزوں کااستعمال کیاجاتاہے لیکن سوناجونافع ہے وہ باقی رہ جاتاہے اوردیگرملاوٹی اورغیرنافع چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔فقہ حنفی ہردور میں بیشترمسلمانوں کا مسلک ومذہب رہاہے یہ ا س کی نافعیت کی بڑی مثال ہے۔

فقہ حنفی کی ایک مزید خصوصیت یہ ہے  وہ صیقل شدہ ہے۔ یعنی حکومت اورکارقضاء اس کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کاحل اس نے پیش کیاہے اورلوگوں کو جو مختلف طرح معاملات پیش آتے ہیں اس میں رہنمائی کی ہے۔ تیرہ صدیوں سے وہ تجربات کی بھٹی میں تپ تپ کر کندن ہوچکی ہے اس معاملے میں اگرکوئی دوسری فقہ اسکے ساتھ شریک ہوسکتی ہے تووہ صرف فقہ مالکی ہے۔ 

فقہ مالکی اورفقہ حنفی میں ایک مابہ الامتیاز فرق یہ ہے کہ فقہ مالکی کادائرہ کار صرف اندلس اوران کے اطراف ہی رہے ہیں جہاں کی تہذیب اومعاشرت ایک جیسی ہے۔جب کہ فقہ حنفی نے مختلف الاذہان اورمختلف ممالک وقبائل کو اپنے سانچے میں ڈھالاہے۔ایک جانب اگروہ عراق اوردارالسلام بغداد میں حکومت کا سرکاری مذہب ہے تواسی کے ساتھ وہ ترک اورروم میں بھی کارقضاءوافتاء انجام دے رہاہے۔ اگرایک جانب چینی مسلمان فقہ حنفی کے حلقہ بگوش ہیں تودوسری طرف ہندی مسلمان بھی اسی کے دائرہ اطاعت مین داخل ہیں۔

بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگرکوئی مذہب اورمسلک تجربات کی بھٹی میں تپ تپ کر کندن ہواہے تووہ صرف فقہ حنفی ہے ۔اگرفقہ حنفی میں جان نہ ہوتی تو وہ تاریخ کے اتنے رگڑے نہیں سہہ سکتی تھی۔وہ اب تک زندہ ہے پایندہ ہے تویہ اسکی نافعیت اورتاریخ کی کسوٹی پر ثابت ہونے والی صداقت ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بتادیناشائد نفع سے خالی نہ ہوگاکہ حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی نوراللہ مرقدہ یہ کہتے تھے کہ فقہ حنفی اورمالکی تعمیری فقہ ہیں اورفقہ شافعی وحنبلی تنقیدی ہیں اوراس کی توجیہہ وہ یہ کرتے تھے۔

"لوگ جانتے ہیں کہ حنفی اورمالکی فقہ کی حیثیت اسلامی قوانین کے سلسلہ میں تعمیری فقہ کی ہے اورشافعی وحنبلی فقہ کی زیادہ تر ایک تنقیدی فقہ کی ہے۔ حنفیوں کی فقہ کومشرق اورمالکی فقہ کو مغرب میں چوں کہ عموماحکمتوں کے دستوالعمل کی حیثیت سے تقریباًہزارسال سے زیادہ مدت تک استعمال کیاگیاہے اس لئے قدرتاان دونوں مکاتب خیال کے علماء کی توجہ زیادہ تر جدید حوادث وجزئیات وتفریعات کےادھیڑبن میں مشغول رہی۔بخلاف شوافع وحنابلہ کے کہ بہ نسبت حکومت کے ان کا زیادہ ترتعلیم وتعلم،درس وتدریس اورتصنیف وتالیف سے رہا اس لئے عموماتحقیق وتنقید کا وقت ان کو زیادہ ملتارہا۔"
(شاہ ولی اللہ نمبرص200)
(یہاں پر یہ بتادیناضروری ہے کہ فقہ حنفی نے اجتہاد وتقلید کے مابین ایک مناسب خط کھینچاہےجو افراط وتفریط سے عاری اوراعتدال وتوازن پر مبنی ہے۔ انہوں نے ایک جانب اجتہاد مطلق کے باب کوبند کیاتودوسری جانب عوام پر تقلید کو ضروری قراردیااورپیش آمدہ مسائل کی رہنمائی کیلئے اجتہاد فی المذہب کے باب کے مفتوح قراردیا۔کیونکہ واقعات وحوادث بے شمار ہیں اورکوئی شخص کتناہی ذہین کیوں نہ ہو لیکن وہ تمام پیش آمدہ واقعات اوراس کے جزئیات نہیں بتاسکتالہذااس کی ضرورت باقی رہتی ہے کہ اجتہاد فی المذہب کا سلسلہ جاری رہے۔)

فقہ حنفی کی ایک اورخصوصیت جواس کو دیگر فقہ سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ امام ابویوسف،امام محمد اورامام زفر اگرچہ خود اپنی جگہ مجتہد مطلق تھے لیکن ان کے اقوال بھی امام ابوحنیفہ کے اقوال کے ساتھ ہی کتابوں میں ذکر کئے گئے ہیں لہذا یہ سب مل ملاکر فقہ حنفی ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے فقہ حنفی کادائرہ بہت وسیع ہوگیاہے۔شیخ ابوزہرہ اس تعلق سے لکھتے ہیں۔

" صرف امام ابوحنیفہ کے اصحاب وتلامذہ کے افکار وآراء ہی ان کے اقوال سے مخلوط نہیں ہوئے بلکہ آگے چل کر لوگوں نے ان میں ایسے اقوال کوبھی داخل کردیا جو امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب سے منقول نہ تھے۔ ان مین سے بعض اقوال کو حنفی مسلک سے وابستہ سمجھاگیااوربعض کو نہیں۔ بعض علماء نے کچھ اقوال کوراجح اوربعض کومرجوح قراردیا۔اس طرح اختلاف وترجیح میں اضافہ ہوتارہا اوریہ سب کچھ بڑےدقیق اورمحکم قواعید پر مبنی تھا۔اس طرح فقہ حنفی میں وسعت پیداہوئی اوراس کا دامن اتناوسیع ہوگیاکہ اس میں زمانہ کے لوازمات اورعام حالات کاساتھ دینے کی صلاحیت پیداہوئی۔(حیات حضرت امام ابوحنیفہ ص724)
آگے چل کر شیخ ابوزہرہ لکھتے ہیں کہ فقہ حنفی کی ترقی کا باعث تین عوامل ہوئے 

1:حنفی مذہب کے دائرہ کے مجتہد اورتخریج مسائل کرنے والے فقہاء۔

2اامام صاحب اورآپ کے اصحاب سے منقول اقوال کی کثرت

3تخریج مسائل کی سہولت اورمخرجین کے اقوال کامعتبرہونا

6: داعیان دین کی کوششیں اورکاوشیں:

یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ سلطنت عباسیہ کے خلفاء حنفی مذہب سے ارادت اورعقیدت رکھتے تھے۔سلطنت عباسیہ کے قاضی اورچیف جسٹس وغیرہ حنفی ہواکرتے تھے۔یہ حکومتیں کفر کی سرزمین پر لشکرکشی کیاکرتی تھی۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہزاروں افراد اسلام لے آتے تھے۔ان نومسلموں کواسلامی تعلیمات سکھانے کی ذمہ داری قاضیوں کی ہواکرتی تھی ۔یہ قاضی چونکہ خود بھی حنفی ہوتے تھے لہذا ان کو مسائل فقھیہ کی تعلیم بھی فقہ حنفی کے مطابق دیاکرتے تھے۔اس طرح رفتہ رفتہ تھوڑے ہی عرصہ میں فقہ حنفی نے ایک بڑی اوروسیع جگہ پیداکرلی ۔بالخصوص نومسلمین تمام کے تمام فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ان نومسلمین قبائل میں سے آگے چل کر جنہوں نے سلطنت وحکومت کی باگ ڈورسنبھالی۔ جیسے کہ سلجوقی،مغل،آل عثمان وغیرہ ۔وہ سب کے سب بھی حنفی ہوئے۔اس کے علاوہ بھی دیگر داعیان دین جنہوں نے انفرادی طورپر دعوت دین کاعلم بلند کیاوہ زیادہ تر حنفی تھے۔

جب چنگیز خان کی قیادت میں تاتاریوں نے عالم اسلامی کوروند دیاتواس وقت عالم اسلام زوال کا شکار تھا۔ اورایسالگتاتھاکہ اس کے دن پورے ہوچکے ہیں لیکن خداکی رحمت جوش میں آئی اورفاتحین نے مفتوحین کے مذہب  کوقبول کرلیا۔

چنگیز خان کی حکومت اس کے بیٹوں میں تقسیم کردی گئی تھی۔چنگیز کے بڑے بیٹے کی نسل جوجی خان مین سے برکہ خان نے اسلام قبول کیااس طرح کہ اسکو خود اسلام کی طرف رغبت ہوئی ا وراس نے مسلم تاجروں سے اس کے حوالے سے پوچھااوراسلام قبول کرلیااوراپنے چھوٹے بھائی کوبھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

چنگیز خان کا پوتاقازان بن ارغوان امیرتوزون کی تلقین سے اوران کے ہاتھ پرمشرف بہ اسلام ہوا۔چنگیز خان کے خاندان کی تیسری شاخ جو بلادمتوسطہ پر قابض تھی اس میں سے تیمورخان نےایک مسلم داعی شیخ جمال الدین کاشغر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔(بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص331)
حقیقت یہ ہے کہ مغل اورترک تمام کے تمام حنفی گزرے ہیں اوراس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے جن کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیاوہ سبھی کے سبھی حنفی تھے لہذا اس اثر سے انہوں نے بھی فقہیات میں حنفی مسلک کواپنایا۔
اسی طرح ہم ہندوستان مین دیکھیں کہ حضرات صوفیاء کرام کے وجود بامسعود سے ہندوستان مین اسلام کی نشرواشاعت ہوئی ۔صرف خواجہ اجمیر ی کے تعلق سے بعض مورخین نے لکھاہے کہ 90لاکھ افراد حلقہ بگوش اسلام ان کی وجہ سے ہوئے۔پھران کے خلفاء اورمریدین نے دوردراز کے مقامات پر جسطرح اسلام کو پھیلایاوہ تاریخ کاحصہ ہے۔ 

سیر الاولیاء کے مصنف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اوران کے خلفاء کی کاوشوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ملک ہندوستان اپنے آخری مشرقی کنارہ تک کفروشرک کی بستی تی ۔اہل تمرداناربکم الاعلیٰ کی صدالگارہے تھے۔اورخداکی خدائی میں دوسری ہستیوں کوشریک کرتے تھے اوراینٹ ،پتھر ،درخت،جانور،گائے وگوبرکوسجدہ کرتے تھے۔کفر کی ظلمت سے ان کے دل تاریک اورمقفل تھے۔سب دین وشریعت کے خم سے غافل،خداوپیغمبر سے بے خبرتھے۔ نہ کسی نے قبلہ کی سمت پہچانی۔نہ کسی نے اللہ اکبرکی صداسنی،آفتاب اہل یقین حضرت خواجہ معین الدین کے قدم مبارک کا یہاں پہنچناتھاکہ اس ملک کی ظلمت نوراسلام سے مبدل ہوگئی۔اوران کی کوشش وتاثیر سے جہاں شعائرشرک تھے وہاں مسجد ومحراب ومنبر نظرآنے لگے۔ جوفضاء شرک کی صداؤںسے معمورتھی وہ وہ نعرہ اللہ اکبر سے گونجنے لگی۔اس ملک میں جس کو اسلام کی دولت ملی اورقیامت تک جوبھی اس دولت سے مشرف ہوگا۔ نہ صرف وہ بلکہ اس کی اولاد دراولاد نسل درنسل سب ان کے نامہ اعمال میں ہوں گے اوراس میں قیامت تک جوبھی اضافہ ہوتارہے گا اوردائرہ اسلام وسیع ہوتارہے گا۔ قیامت تک اس کاثواب شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری کی روح کو پہنچتارہے گا۔
(سیر اولیاء ص47،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص28-29)
سیر الاقطاب کے مصنف لکھتے ہیں
ہندوستان میں ان کی وجہ سے اسلام کی اشاعت ہوئی اورکفر کی ظلمت یہاں سے کافور ہوئی۔(سیرالاقطاب101)
یہ صرف صوفیانہ خوش عقیدگی نہیں ہے بلکہ دیگر مورخین نے بھی اس کااعتراف کیاہے۔ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتاہے۔
اجمیر میں عزلت گزریں ہوئے اوراسلام کا چراغ بڑی آب وتاب سے روشن کیااوران کےانفاس قدسیہ سے جوق درجوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی۔(ائین اکبری،سرسید ایڈیشن ص270،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص30)
یہ سب صوفیائے کرام چونکہ حنفی تھے لہذا نومسلم بھی فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔برصغیر ہندوپاک میں کس طرح اسلام پھیلا۔اس پرپروفیسر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام بہت اچھی اورمستند کتاب ہے۔اس کا مطالعہ کیاجائے۔ہم اس مختصر مضمون میں کچھ اشارے کردیتے ہین بالخصوص ہندوستان کے تعلق سے۔
کشمیر جوبرہمنوں کا گڑھ تھااس کو سید علمی ہمدانی نے اپنی دعوتی کوششوں سے اسلام کے مرکز میں تبدیل کردیااوراس طرح تبدیل کیاکہ آبادی کاتوازن ہی بالکل الٹ دیا۔جہاں کبھی برہمن اکثریت میں تھے اب وہ اقلیت میں آگئے۔سید علی ہمدانی حنفی تھے لہذا ظاہرسی بات ہے کہ ان کے اثر سے اسلام قبول کرنے والے بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔

خواجہ خواجگان شیخ چشتی اجمیری نے جس طرح ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت کی ۔اس کے بارے میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں۔

"سلسلہ چشتیہ کی بنیاد ہندوستان میں پہلے ہی دن سے اشاعت وتبلیغ اسلام پر پڑی تھی۔اوراس کے عالی مربت بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہاتھ پر اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے کہ تاریخ کے اس اندھیرے مین اس کا اندازہ لگانابھی مشکل ہے"(تاریخ دعوت وعزیمت جلد سوم)

پنجاب کے مغربی صوبوں کے باشندوں نے خواجہ بہاء الحق ملتانی اوربابافرید پاک پٹن کی تعلیم سے اسلام قبول کیا۔یہ دونوں بزرگ تیرہویں صدی عیسوی کے قریب خاتمہ اورچودھویں صدی عیسوی کے شروع میں گزرے ہیں۔ بابافرید گنج کے بارے میں مصنف نے لکھاہے کہ انہوں نے سولہ قوموں کو تعلیم وتلقین سے مشرف بہ اسلام کیا۔(پریچنگ آف اسلام)

اس کے علاوہ تمل ناڈو کے بارے میں آتاہے کہ وہا ں نویں صدی میں ایک بزرگ مظہر نامی آکربسے تھے اوران کے ساتھ 900مریدین کی تعداد تھی۔ انہوں نے وحشیوں کو زیربھی کیااوراپنے اخلاق وکردارسے ان کو اسلام کی جانب مائل بھی کیا۔بنگال وبہار میں بھی اسلام کی شاعت صوفیاء کرام کے ہی زیر اثر ہوئی۔اوریہ بات مخفی نہیں ہے کہ صوفیاء کرام میں سے تمام کے تمام حنفی تھے لہذا ان کے وابستگان بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔
انڈونیشیااورملیشیاء میں حنفیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جب کہ وہاں پر کوئی لشکر کشی نہیں ہوئی وہاں تاجروں کے ذریعہ اسلام پھیلا۔گمان غالب یہ ہے کہ یہ تاجربھی حنفی ہوں گے اوران کے اثر سے اسلام قبول کرنے والوں نے فقہ حنفی کو اپنایاہوگا۔

یہ اگرچہ انتہائی مختصر جائزہ ہے لیکن اس سے اتنی بات ثابت ہورہی ہے کہ صوفیاء کرام اورداعیان دین کی فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں اہم کرداراورحصہ ہے۔

7: حکومت وسلطنت کااثر

عمومی طورپر مورخین نے بھی فقہ حنفی کے شیوع اوراقطارعالم مین انتشار کاایک حکومت وسلطنت کی سرپرستی قراردیاہے۔اورامام ابویوسف کے عباسی سلطنت میں قاضی القضاۃ(چیف جسٹس)بننے کو بڑی وجہ قراردیاہے۔

ابن حزم لکھتے ہیں
مذہبان انتشرا فی بدء امرھمابالریاسۃ الحنفی بالمشرق والمالکی بالاندلس(وفیات الاعیان 2/216)دومذہب ابتداء میں حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے پھیلے مشرق مین حنفی اوراندلس میں مالکی مذہب۔
ابن خلدون لکھتے ہیں:

امام ابوحنیفہ کے ماننے والے آج عراقی، سندھی، چینی ،ماوراء النہر اورتمام عجمی شہروں کے مسلمان ہیں۔ کیونکہ ان کامذہب خصوصیت سے عراق اوردارالسلام کامذہب تھااورسرکاری مذہب کو ہی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ اس ضمن میں  لکھتے ہیں۔
وَكَانَ أشهر أَصْحَابه ذكرا أَبُو يُوسُف تولى قَضَاء الْقُضَاة أَيَّام هَارُون الرشيد فَكَانَ سَببا لظُهُور مذْهبه وَالْقَضَاء بِهِ فِي أقطار الْعرَاق وخراسان وَمَا وَرَاء النَّهر(الانصاف فی اسباب الاختلاف ص39)
اس سے انکار نہیں کہ یہ بھی فقہ حنفی کے نشرواشاعت کاایک سبب ہے لیکن اسی کو مکمل سبب قراردینانہ صرف امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کے کام ،کار،کارنامہ کے ساتھ ظلم ہے بلکہ ان تمام فقہائے احناف کے ساتھ ظلم ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی فقہ حنفی کی خدمت میں لگادی۔

دورحاضر میں یہ ایک طرفہ تماشاہے کہ کچھ لوگ حنفیوں کی کثر ت تعداد پر توفوراًان آیتوں کی تلاوت شروع کردیتے ہیں جن میں اکثریت کو گمراہ بتایاگیاہے لیکن اسی کے ساتھ پورے تن من دھن سے اپنی جماعت کی تکثیر کی بھی کوشش کرتے ہیں اورکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔

یہ بھی کسی لطیفہ سے کم نہیں ہے کہ ہمارے کچھ مہربان فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تمام اسباب وذرائع کونگاہ میں رکھنے کے بجائے بس ایک ہی راگ الاپتے رہتے ہیں کہ فقہ حنفی کے پھیلنے میں سلطنت وحکومت کاکام ہے۔ان سے بس اتناساسوال ہے کہ چلوفقہ حنفی کے انتشار وشیوع میں توفقہ حنفی کاہاتھ ہے اورنام نہاد سلفیت جوککرمت (جھاڑجھنکار)کی طرح پھیل رہی ہے اس میں زرسیاہ(پٹروڈالر)کاکتناعمل دخل ہے؟

مستشرقین کایہ عمومی الزام رہاہے کہ اسلام تلوار سے پھیلاہے لیکن مستشرقین خودیہ بھول جاتے ہیں کہ عیسائیت کس طرح پھیلی ہے۔اس کامشہور طنزومزاح نگار اکبرالہ آبادی نے اچھاجواب دیاہے۔وہ کہتے ہیں

یہی کہتے رہے تیغ سے پھیلااسلام

یہ نہ ارشاد ہواتوپ سے کیاپھیلاہے؟
فقہ وحنفی پر حکومت وسلطنت کی پشت پناہی کاالزام دینے والوں سے بس اتنی ہی سوال ہے کہ

یہی فرماتے رہے حکومت سے پھیلی حنفیت

یہ نہ ارشادہواپٹروڈالر سے کیاپھیلاہے؟

یہ شاید بہتوں کومعلوم نہ ہوکہ سرکاری استبداد اورظلم وجور کاستم کابھی فقہ حنفی کوہی کرناپڑاہے۔دیگرمسالک اس سے بہت حد تک بچے رہے ہیں۔اندلس وغیرہ میں فقہ حنفی رواج پذیرتھی  لیکن وہاں کے سلطان نے شاہی استبداد سے کام لے کر فقہائے احناف کو اپنی مملکت سے جلاوطن کردیا۔مقدسی احسن التقاسیم میں بعض اہل مغرب کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔

ایک مرتبہ سلطان کے سامنے دونوں فریق جمع ہوئے سلطان نے پوچھاامام ابوحنیفہ کہاں کے ہیں۔کہاگیاکوفہ کے ۔پھراس نے پوچھاامام مالک کہاں کے ہیں جواب دیاگیامدینہ کے۔ تواس نے کہاکہ ہمارے لئے صرف امام دارالہجرت کافی ہیں ۔اس کے بعد اس نے تمام فقہائے احناف کوملک سے باہر نکل جانے کاحکم دے دیااورکہنے لگامیں اپنی سلطنت مین دومذہب پسند نہیں کرتا۔(احسن التقاسیم)
مصر میں فقہ مالکی شافعی اورحنفی سبھی موجود تھے لیکن فاطمی حکمرانوں کے دورمیں صرف فقہ حنفی کووہاں کے حکام نے نشانہ بنایا۔اوراس کی وجہ سیاسی تھی کیونکہ فقہ حنفی سلطنت عباسیہ کاسرکاری مذہب تھااورعباسی خلفاء اورفاطمی حکمرانوں میں ہمیشہ چپقلش رہتی تھی دونوں دینی سیادت وقیادت کے دعویدار تھے۔ایک سنیوں کا نمائندہ تودوسراشیعوں کا نمونہ تھا۔اس وجہ سے فاطمی حکمرانی کے دورمیں جوطویل عرصہ تک ممتد رہا۔فقہ حنفی کونشانہ بنایاگیا۔
اسی طرح فارس یعنی موجود ایران پوراکاپورافقہ حنفی پر عمل پیرتھا۔لیکن ایک جانب وہاں صفوی خاندان کے حکمرانوں نے شیعت کی کوشش وترویج میں جم کر حصہ لیاتودوسری جانب سلطنت عثمانیہ سے چپقلش کی وجہ سےحنفیوں پر زندگی تنگ کردی اوران کو ہرطرح سے ستایاگیا۔نتیجہ یہ ہواکہ وہ شہراوربلاد وامصار جوکبھی فقہائے احناف کے گڑھ ہواکرتے تھے ویران اورسنسان ہوگئے۔اورفارس جوکبھی علمی رہنمائی میں اسلامی دنیاکا نقیب اوررہنماتھاعلمی تنزلی سے ایسادوچارہواکہ  کل تک جوزمانہ کےا مام تھے وہ غیروں کے پیروکار بن گئے۔

ہم نے یہ کچھ وجوہات اس لئے بیان کی ہیں کہ تاکہ فقہ حنفی کے انتشاراورشیوع کے تعلق سے مخالفانہ پروپیگنڈہ کرنے والے اپنے نظریات پر نظرثانی کریں۔ سنجیدگی سےغورکریں اورسمجھیں کہ مورخین کے چند بیانات کوجس طرح وہ اپنی دلیل بنائے ہوئے ہیں وہ اس موضوع کے موضوعی اورغیرجانبدارنہ مطالعہ میں کہاں تک درست اورباصواب ثابت ہوتاہے۔
اللہ ہم سب کو اپنی مرضیات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین

2 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

واہ کیا خوب لکھا ہے
کاش فقہ حنفی کی بجائے قرآن وحدیث کی ترویج کی ہوتی
اللہ ہمیں قرآن وحدیث پر عمل کرنے والا بنائے
آمین

نعمان محمد نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم محترم جمشید صاحب۔
ماشاءاللہ خوب تحریریں ہیں آپ کی۔
آپ سے ایک درخواست ہے کہ مجھے آپ کا ای میل ایڈریس ضرورت ہے، ایک معاملہ میں آپ کی رہنمائی اور مدد کی ضرورت تھی۔
جواب کا منتظر
محمد نعمان
جزاک اللہ

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔