Pages

Monday 9 October 2017

فہم حدیث میں اختلاف کاجائزہ قسط نمبر۱

فہم حدیث میں اختلاف کاجائزہ
تمہید
فروعی مسائل میں فقہاء ومجتہدین کے درمیان اختلافات عام ہیں،اصول یعنی عقیدہ میں کم وبیش اتفاق کے باوجود فروع میں اختلاف کیوں واقع ہوا،اس کے اسباب ووجوہ بہت سارے ہیں، فقہاء کرام کے درمیان اختلاف کے اسباب پر ہردور میں اہل علم نے قلم اٹھایاہے اوراختلاف کے بیشتر وجوہ یاکسی ایک سبب کی نشاندہی کی ہے،متقدمین فقہاء نے بیشتر دلائل پرمختلف اقوال اوران کے دلائل اوران پر محاکمہ کے ضمن میں اختلاف کی وجوہ پر بحث کی ہے،قرآن میں آیات احکام پر جن حضرات نے قلم اٹھایاہے، انہوں نے بھی اسباب اختلاف پر گفتگو کی ہے، احادیث کی شرح کے ضمن میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف اور اس کی وجوہ پر قیمتی نکتے ملتے ہیں،فقہ اربعہ کے تقابلی مطالعہ پر لکھی گئی کتابوں میں بھی اسباب اختلاف پربیش قیمت بحثیں ملتی ہیں،فقہاء کرام کے درمیان اسباب اختلاف پر لکھی گئی کتابوں میں ابن تیمیہ کی ’’رفع الملام عن ائمۃ الاعلام‘‘اورحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی ’’الانصاف فی بیان سبب الاختلاف‘‘ کوخاص امیتاز حاصل ہے۔
فقہاء کرام کے درمیان اختلاف پر دور حاضرمیں بھی خاص اسی موضوع پر بہت سی بیش قیمت کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں سے دوکتابوں کو خاص امتیاز حاصل ہے،ایک دکتور مصطفے سعید الخِن کی ’’اثرالاختلاف فی القواعد الاصولیۃفی اختلاف الفقہاءاوردوسری فضیلۃ الشیخ محمد عوامہ کی ’’اثرالحدیث فی اختلاف الفقہاء‘‘[1]ہے۔     
ماضی قریب میں ایک ایسی لہر چلی جس میں اکابرعلماء وائمہ سے بدگمانی عام ہے،حسن ظن کا دور دور تک گذر نہیں،اسی بدگمانی کا زور ہے کہ جن باتوں کو علماء نے آپسی چشمک قراردے کر کتابوںمیں دفن کردیاتھا،اب انہی کو سربازار دوہرایاجارہاہے اور جو باتیں پہلے محض اکابر اہل علم تک محدود تھیں، اب وہ ہرخاص وعام کی زبان پر ہے، مزید ستم یہ ہے کہ’’ عیبش جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو‘‘پر دور دور تک عمل نہیں،ان کی اسی حرکات شنیعہ کی بناء پر بعض اہل علم نے ایسے لوگوں کو اہل الجرح والتجریح کا خطاب دیاہے[2]۔
عمومی طورپر احناف پر اورخصوصی طورپر امام ابوحنیفہ پر یہ الزام عاید کیاجاتاہے کہ وہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے رہے ہیں،یہ الزام کافی قدیم ہے[3]۔لیکن یہ الزام واقعیت سے زیادہ سطحیت پر مبنی ہے،اس اعتراض کا منشایاتوامام ابوحنیفہ کے اصول اجتہاد سے ناواقفیت ہے،یاپھر ائمہ احناف کے طرزاجتہاد سے بے خبری ہے یاپھر احناف کے خلاف پروپیگنڈہ اوربے بنیاد باتوں کودرست سمجھ لیناہےیاپھرکچھ مسائل کو دیکھ کر جن میں احناف نے ظاہر حدیث پر عمل نہیں کیاہے،یہ رائے قائم کرلیناہے،اگرامام ابوحنیفہ یادیگر ائمہ احناف کے اصول اجتہاد سے صحیح واقفیت ہو اورفقہ حنفی میں حدیث کا جو مقام اوردرجہ ہے اورفقہاءاحناف نے اس کو جتنی اہمیت دی ہے اس کا علم ہو تو یہ اعتراض پیدانہیں ہوگا۔
فقہاء کے درمیان اختلاف کے اسباب ووجوہ بہت سارے ہیں،ان میں سے اہم اختلاف ’’فہم کااختلاف‘‘بھی ہے، بات ایک ہوتی ہے،لیکن دو آدمی اس سے دومطلب کشیدکرتے ہیں،یہ سوچنے کا اور سمجھنے کا اختلاف ہے۔
اختلاف فہم میں مزاج اورعلاقہ کا دخل
انسان  کے سوچنے سمجھنے کے انداز میں اس کے مزاج کو بھی کافی دخل ہے،اگرانسان سخت گیر خیالات کا حامل ہے تو اس کا ذہن اسی رخ پر چلے گا، اگرانسان کی طبعیت میں نرمی ہے تو اس کی تفکیر میں بھی یہ نمایاں رہے گا،یہ ایک ایسی واضح اورنمایاں بات ہے جسے ہرکوئی جانتاہے،خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اس کا فرق تھا، حضرت ابوبکر رضی للہ عنہ کو ارحم امتی کہاگیاتوحضرت عمرؓ کو اشدہم فی امراللہ[4]  فقہاء کرام اورمجتہدین عظام بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں،اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب منصور نے حضرت امام مالک سے موطا کے لکھنے کی فرمائش کی تو ساتھ ہی یہ بھی فہمائش کی ہے اس میں اعتدال اورمیانہ روی کا خیال رکھاجائے نہ عزائم ابن عمر کو مکمل راہ دی جائے اورنہ رخص ابن عباس کی ہی مکمل پیروی کی جائے[5]۔
 انسان کی طبیعت اورمزاج میں ایک بڑا دخل اس علاقہ اورماحول کوبھی ہے جس میں وہ رہتاہے،انسان اگر ہرے بھرے باغات کے درمیان رہےتواس کی طبیعت میں نرمی ہوتی ہے، اگرپہاڑی اورریگستانی علاقہ میں بودوباش ہو تو طبعیت میں سختی ہوجاتی ہے( دیکھئے:مقدمہ ابن خلدون ،المقدمۃ الرابعہ فی اثرالھواء فی اخلاق البشر، اور ’المقدمۃ الخامسۃ فی اختلاف احوال العمران فی الخصب والجوع وماینشأ عن ذلک من الآثار فی أبدان البشر وأخلاقھم،ص۱۲۷-۱۲۸)
ابن خلدون آگے چل کر ذکر کرتے ہیں کہ فقہاء کرام کو جن علاقوں میں مقبولیت حاصل ہوئی،اس میں ایک بڑادخل ان علاقوں کے مخصوص حالات کابھی ہے،چنانچہ ابن خلدون اندلس اورمغربی علاقوں میں فقہ مالکی کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ مدینہ اوراندلس میں’’ بدویت‘‘ کا قدر مشترک ہونا بتاتے ہیں:
وایضافالبداوۃ کانت غالبۃ علی اھل المدینۃ والاندلس ولم یکونوا یعانون الحضارۃ التی لاھل العراق ،فکانوا الی اھل الحجاز امیل لمناسبۃ البداوۃ،ولہذا لم یزل مذہب المالکی عندہم غضا(مقدمہ ابن خلدون،۲؍۵۴۶،مطبع الدارالتونسیۃ للنشر)
اوریہ بات بھی ہے کہ بدویت مدینہ اوراندلس والوںمیں قدر مشترک تھی اور وہ لوگ اس تہذیب وتمدن کے خوگر نہیں تھے جو اہل عراق میں تھا،اسی وجہ سے اندلس والے عراقیوں کے مقابل اہل مدینہ سے بدویت کے مشترک ہونے کی وجہ سے زیادہ مانوس ہوئے اور اسی وجہ سے اندلس میں فقہ مالکی کو فروغ ہوا۔
علاقہ توعلاقہ بسااوقات آدمی کا پیشہ ایک ہوتاہے مگر نوعیت کا فرق ہونے سے بھی مزاج اورطبیعت میں فرق ہوتاہے، چرواہا چاہے بکری کاہو،یاپھر اونٹ کا ،ہوتاوہ چرواہاہی ہے،اس کےباوجود اونٹ اوربکری کی مصاحبت کا انسان کی طبیعت اورمزاج پر فرق پڑتاہے، بکری کے چرواہے میں صبر وتحمل ہوتاہے اوراونٹ کے چرواہے میں تکبر اور فخر وغرور کا جذبہ ہوتاہے، ارشاد رسولﷺ ہے:
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " أتاكم أهل اليمن هم أرق أفئدة وألين قلوبا الإيمان يمان والحكمة يمانية والفخر والخيلاء في أصحاب الإبل والسكينة والوقار في أهل الغنم " . (بخاری،باب قدوم الاشعریین واھل الیمن ،حدیث نمبر: 4388،مسلم ،باب تفاضل اھل الایمان ،حدیث نمبر۵۲)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (جب یمن سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی قوم کے لوگ خدمت رسالت پناہ میں حاضر ہوئے تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس یمن کے لوگ آئے ہیں جو (تمہارے پاس آنے والے اور لوگوں کی بہ نسبت ) زیادہ رقیق القلب اور زیادہ نرم دل ہیں ایمان یمن کا ہے اور حکمت بھی یمنی ہے اور فخر (یعنی اپنے مال ومنصب وغیرہ کے ذریعہ اپنی بڑائی مارنا ) اور تکبر کرنا اونٹ والوں میں سے ہے ، جب کہ اطمینان وتحمل اور وقار بکری والوں میں ہے ۔
پھر خود انسان جس فکر ونظر کا قائل ہوتاہے،اس کا بھی قرآن وحدیث کے فہم وفقہ پر اثر پڑتاہے،اوریہی چیز ائمہ کرام کےقرآن وحدیث  کے فہم میں اختلاف بن کر نمودار ہوئی ہے،حدیث بنی قریظہ پر ابن حزم اور ابن قیم کے نقطہ نظر کا فرق ان کے فہم حدیث میں کس قدر پڑاہے، اس کا ذکر آگے آئے گا۔صائب نے بالکل صحیح کہاہے۔
تفاوت است ميان شنيدن من و تو
تو بستن در و من فتح باب مي شنوم
ہمارے اورتمہارے درمیان سننے کے بعد نتیجہ اخذ کرنے کا فرق ہے،تم آواز سے دروازہ بند ہونے کا نتیجہ اخذ کرتے ہو اور میں دروازہ کھلنے کا نتیجہ اخذ کرتاہوں۔
اختلاف عیب نہیں ہے:
دورحاضر میں اختلاف کو مذموم اوربری شکل میں پیش کیاجارہاہے اور یہ مغالطہ پھیلایاجارہاہے کہ کتاب وسنت کی جگہ فقہاء کے اقوال اختیار کرنے کی وجہ سے مسلکی اختلاف رونماہواہے،ورنہ اگر سب مل کر کتاب وسنت پرعمل کریں تو اختلاف باقی نہ رہے گا، اس طرح کی بات کہنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں،مختلف مسائل میں اختلاف عہد صحابہ سے ہی تھا، فروعات میں اختلاف کو نہ صرف برداشت کیاگیاہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے،اوراختلاف کو مٹانے کی مصنوعی تدبیروں کو امت کیلئے نقصاندہ بتایاگیاہے۔
حضرت امام مالک کا عہد ہے،ان کے امام حدیث ہونے کی شہرت مشرق سے گزرکر افریقا اور اندلس تک پہنچ چکی ہے، شمع علم کے پروانے دور دور سے آکر ان پردیوانہ وار گررہے ہیں،اپنی علمی تشنگی بجھارہے ہیں،خلافت عباسی تک ان کے علم وفضل کے احترام پر مجبور ہے،خلافت عباسی کا دوسراخلیفہ منصور امام مالک سے کہتاہے کہ آپ ایک کتاب لکھئے جس میں سارے مسائل کو بغیر اختلاف کے جمع کیجئے ،پھر میں اپنی مملکت کے ہرفرد پر اس کی پابندی لازمی کردوں گا،جو اس کے خلاف عمل کرے گا،اس کی گردن اڑادوں گا،امام مالک کہتے ہیں کہ امیرالمومین ایسانہ کیجئے،رسول اللہﷺ کے صحابہ مختلف علاقوں اورشہروںمیں بس گئےہیں، اور ان علاقہ کے افراد نے ان صحابہ کرا م سے علم اخذ کیاہے،اگرآپ نے زبردستی ان کو اس پر مجبور کیاتو وہ شاید ناواقفیت کی وجہ سے اس کو کفر سمجھ لیں گے(تقدمہ الجرح والتعدیل ص۲۹)امام مالک کی مرادیہ تھی کہ اگر ایک شخص رفع یدین نہیں کرتاہے،وہ ہمیشہ عدم رفع یدین کرتارہاہے اوراس کو وہی پتہ ہے توایسے میں اگراس کو زبردستی رفع یدین پر مجبور کیاگیاتو وہ رفع یدین کو کہیں دین سے خارج اور کفروزندقہ نہ سمجھ لے اور یہ صورت جہاں مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کی وجہ ہوگی وہیں مسلمانوں کے دین وایمان کیلئے بھی بڑافتنہ ثابت ہوگی۔
امام مالک سے پہلے اسی نتیجہ پر پانچویں خلیفہ راشد عمربن عبدالعزیز پہنچ چکے تھے، ان کابھی ارادہ ایک مرتبہ یہ ہوا کہ ایک مملکت کے ہرمسلمان کو ایک مسلک پرجمع کردیں لیکن پھر انہوں نے انہی نتائج وعواقب کا انداز ہ کرکے جن کو امام مالک نے بیان کیاہے، اس ارادہ سے باز رہے(تاریخ ابوزرعہ الدمشقی ۱؍،۲۰۲بحوالہ ادب الاختلاف فی العلم والدین  ص۳۴)
لہذا آج جولوگ کتاب وسنت کے نام پر اختلاف ائمہ کومذموم کہہ رہے ہیں، یاامت کے مسائل ومشکلات کا حل ان مسلکی اختلافات کو ٹھہرارہے ہیں وہ یاتو ان مسلکی اختلافات کی نوعیت وحقیقت سے لاعلم ہیں یاپھر تعصب نے ان کے ذہن ودماغ مسموم کردیاہے۔
شیخ عوامہ نے اپنی نفیس تالیف ادب الاختلاف فی العلم والدین میں مختلف اکابر اہل علم کا یہ قول نقل کیاہے کہ فروعی مسائل میں اختلاف اس امت پر اللہ کی رحمت ہے اوریہ اختلاف نہیں بلکہ توسع اورگنجائش ہے اورجس کی وجہ سے مسلمانوں کو سہولت اورراحت ملتی ہے،ایک کسی مسئلہ میں محض ایک ہی قول ہو تو مسلمان جوپوری دنیا میں بکھرے پڑے ہیں،جن کے علاحدہ کلچر،تہذیب،ثقافت اور رہن سہن بودوباش ہے،یہ ان کیلئے تنگی اورحرج کا باعث ثابت ہوگا۔




[1] :بعض حضرات نے اس نام پر یہ کہہ کر اعتراض کیاہے کہ حدیث کواختلاف کی بنیاد قراردینا غلط ہے، حالانکہ یہ ان کی غلط فہمی ہے، ان سے قبل حدیث کے سلسلے میں دیگر علماء اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ استعمال کرچکے ہیں، امام ابن وہب کا مشہور قول ہے، الحدیث مضلۃ الاالفقہاء،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب حضرت ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کیلئے بھیجا توان کو ہدایت دی کہ مناظرہ میں قرآن سے استدلال مت کرنا ،حدیث وسنت سے استدلال کرنا اور وجہ یہ بیان کی کہ قرآن ذووجوہ ہے، اس میں بہت سے معانی کا احتمال ہے۔( طبقات ابن سعد۱؍۱۸۰: )
[2] :ماضی میں جوحضرات رجال اور حدیث کے روات پر نقد کرتے تھے ان کو اہل الجرح والتعدیل کہاجاتاہے،کیونکہ وہ اپنے مخالفین سے بھی انصاف کرتے تھے،اس کی انتہایہ ہے کہ وہ خارجی جس نے حضرت علی ؓ کو شہید کرنے والے ابن ملجم کی تعریف کی ہے اس کی روایت بھی بخاری تک میں موجود ہے اورنہ جانے کتنے دیگرمذاہب وفرق کے افراد کی محدثین نے توثیق کی ہے، لیکن دور حاضر کے ان حضرات کااصول دوسراہے، اگر کوئی ہمارے فرقہ کا ہے تواس کیلئے وہ اھل التعدیل بنے رہتے ہیں اوراگر دوسرے فرقہ کا ہے تواس کیلئے اہل الجرح بنے رہتے ہیں خواہ ان کایہ مخالف ان سے بلحاظ علم وفضل اورتدین وخوف خداان سے بدرجہاافضل وبہترہی کیوں نہ ہو۔
[3] :اس کیلئے جرح وتعدیل  کی کتابیں بطور خاص عبداللہ بن احمدکی السنۃ،اورخطیب بغدادی کی تاریخ بغداد کا مطالعہ کیاجائے ،ان کے علاوہ ابن حبان ،ابن عدی اور عقیلی کی تصانیف میں بھی امام ابوحنیفہ کے مثالب کا ذکر تفصیل سے ملتاہے۔
[4] : سنن الترمذي : 2 / 309،ابن ماجه رقم الحدیث:154،ابن حبان رقم الحدیث: 2218
[5] : (تاریخ ابن خلدون 1/18-19، ترتيب المدارك للقاضي عياض 1/60)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔