Pages

Monday 9 October 2017

فہم حدیث میں اختلاف کاجائزہ قسط نمبر۳

ظاہر حدیث پر عمل نہ کرنا
کبھی ایساہوتاہے کہ حکم کی جو بنیاد ہوتی ہے وہ نہیں پائی جاتی تواس حکم پر عمل کا حکم بھی ختم ہوجاتاہے،لیکن حکم کی بنیاد کو متعین کرنا آسان کام نہیں، یہ راسخین فی العلم کا کام ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی گہرائی میں ڈوب کر یہ بات معلوم کرتے ہیں کہ فلاں حکم کی اصل اوربنیاد کیاہے اورجب کسی جگہ وہ بنیاد نہیں پائی جائے گی تو وہ حکم بھی نافذ نہیں ہوگا، حکم کی اصل علت اوروجہ کے نہ پائے جانے پر اگرکوئی فقیہ حکم کی منسوخی یاعدم نفاذ کا حکم دیتاہے تواس کوبھی ایسے لوگ ،جنہیں فقہ سے زیادہ مس نہیں ہے ،ارشاد رسول کی مخالفت سمجھ لیتے ہیں۔
حضرت علیؓ کا مقام ومرتبہ محتاج تعارف نہیں ہے،آپ کو اقضی الصحابہ کاعالی خطاب دربار رسالت سے ملاہے (سنن ابن ماجہ۱؍۵۵،حدیث نمبر 154،مسند ابویعلیٰ الموصلی۱۰؍۱۴۱،حدیث نمبر۵۷۶۳) حضرت عمرؓ ایسے مشکل مسئلہ سے پناہ مانگتے تھے جس کے حل کیلئے حضرت علیؓ نہ ہوں(الاستيعاب ج: 3 ص: 1102)
۱۔آنحضرت کی لونڈی حضرت ماریہ کو منافقین کے ایک گروہ نے ان کے چچازاد بھائی حضرت مابور سے متہم کردیا، یہ خبر اس انداز سے پھیلی کہ خود انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی اس کاخبر کا یقین آگیااورکچھ قرائن وشواہد بھی ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے آپ کایقین بے جانہ تھا، آپ نے غیرت میں آ کرحضرت علی سے فرمایا کہ مابور جہاں ملے، جاکر قتل کردو۔آج کے زمانہ کے لحاظ سے کہیں تو یہ شوٹ اایٹ سائٹ دیکھتے کے ساتھ جان سے مارنے کا حکم تھا،آپ ﷺکے الفاظ یہ ہیں:
«اذْهَبْ فَاضْرِبْ عُنُقَهُ
(صحیح مسلم، الناشر: دار إحياء التراث العربي،باب براءۃ حرم النبی صلی اللہ علیہ وسلم، رقم الحدیث: 2771)
’’جاؤجاکر اس کی گردن اڑادو‘‘،حضرت علی گئے تو دیکھاکہ وہ ایک کنویں میں پائوں لٹکائے ہوئے بیٹھاہے ،اس کو جووہاں سے کھینچا تو اس کشمکش میں اس کا تہہ بند کھل گیاحضرت علی نے جودیکھاتومعلوم ہواکہلم یخلق اللہ لہ ماللرجال (مستدرک4/39)اللہ نے فطرتاًاس کا آلہ ہی پیدانہیں کیا،امام مسلم کے الفاظ یہ ہیں۔
وانہ لمجبوب مالہ ذکر(صحیح مسلم ،المصدرالسابق)وہ مجبوب ونامرد تھااوراس کا سرے سے آلہ تناسل ہی نہ تھا۔حضرت علی کوباوجود اس کے کہ درباررسالت سے قتل کاقطعی حکم مل چکاتھا،مگرآپ نے جب محسوس کیاکہ قتل کی جوعلت اورمنشاء تھی وہ یہاں سرے سے مفقود ہے تو وہ قتل سے باز رہے اورآنحضرت سے جاکر پوراماجراعرض کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سن کر فرمایا:
"الشاهد يرى ما لا يرى الغائب"(مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، الناشر: مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة،2/237،رقم الحدیث: 634)
’’حاضرجوکچھ دیکھتاہے وہ غائب نہیں دیکھ سکتا‘‘،ظاہر ہے کہ حضرت علی نے منشائے رسول کو سمجھ کر آنحضرت کے ظاہری الفاظ کے خلاف عمل کیا اوراس کوقتل نہ کیا بلکہ چھوڑدیا۔کیااس کو کوئی مخالفت حدیث کاالزام دے سکتاہے ؟
ایساہی سمجھناچاہئے کہ مجتہدین اورائمہ کرام رحمہم اللہ نے اگرکہیں حدیث کے ظاہر الفاظ کے خلاف عمل کیاہے توانہوں نے منشائے رسول کو ہم سے بہتر سمجھاہے اورکوئی اس میں اشارۃ النص اوردلالۃ النص ہوگاجس کی بنیاد پر انہوں نے ظاہری الفاظ پر عمل سے گریز کیاہے۔
لیجئے حضرت علی کی ہی ایک اورروایت ملاحظہ کیجئے ،وہ فرماتے ہیں:
۲۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نوکرانی نے زناکیا،مجھے آپ نے فرمایاکہ’’ جاکر اس کو کوڑے لگاؤ‘‘، میں گیاتودیکھاکہ اس کے ہاں بچہ پیداہواہے ،مجھے یہ خوف ہواکہ اگرمیں نے اس کو سزادی توکہیں وہ مرہی نہ جائے،میں بغیرسزادیئے واپس آپ کی خدمت میں پہنچا اورساراقصہ سنادیا، آپ نے فرمایا’’تونے اچھاکیا‘‘(مسند احمد ،حدیث نمبر: 1341،صحیح مسلم باب تاخیر الحدعن النفساء،حدیث نمبر: 1705)
اس حدیث میں غورکیجئے ۔اپ کا ظاہری حکم تویہ تھاکہ جاؤاورجاکر حد شرعی قائم کرو ؛مگرحضرت علیؓ نے اپنے تفقہ اوراجتہاد سے یہ سمجھاکہ اگراس حال میں اس باندی پر حد جاری کیاگیاتو وہ مرجائے گی اور بچہ بے یارومدد گار رہ جائے گا،فقہی زبان میں کہیں تو اس وقت باندی پر دو حق تھے،ایک حق اللہ اورایک حق العبد ،حق العبد اس کے نوزائیدہ بیٹے کا حق تھاکہ اس کی والدہ اس کو دودھ پلائے اوراس کی پرورش کرے،اللہ کا حق تھاکہ اس نے جو جرم کیاتھااس کی سزا اس پر نافذ کی جائے،حضرت علیؓ نے اپنے خداد اد تفقہ سے یہ نکتہ مستنبط کیاکہ حق العبد اورحق اللہ میں اگر کسی طرح کی آویزش ہوتو حق العبد متقدم ہوگا۔
حضرت علیؓ نے ظاہر الفاظ کے مطابق عمل نہیں کیا اوراس پردرباررسالت سے تصدیق ملتی ہے کہ’’ تونے اچھاکیا ‘‘ ، اب اگرائمہ مجتہدین میں سے کوئی ایک اگرکسی حدیث کے ظاہر الفاظ پر عمل نہ کرے اوراس کے کسی عام معنی  کودیگر ارشادات رسول یادیگر نصوص سے ثابت شرعی حکمت ومصلحت کا لحاظ رکھ کرخاص کردے یامشروط کردے توکیاوہ مخالفت حدیث کے زمرہ میں آتاہے؟
۳۔حدیث میں موت کی خواہش سے ممانعت کی گئی ہے  اورخود امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں حضرت انس سے اس روایت کو نقل کیاہے:قال أنس رضي الله عنه: لولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «لا تتمنوا الموت» لتمنيت(صحيح البخاري، المؤلف : محمد بن إسماعيل البخاري،الناشر: دار طوق النجاة،رقم الحدیث، 7233)
امام بخاری نے اس حدیث کو دوسرے الفاظ کے ساتھ بھی نقل کیاہے،جس میں واضح الفاظ میں ہرقسم کے حالات میں موت کی ممانعت ہے:عن أبى هريرة - أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال «لا يتمنى أحدكم الموت إما محسنا فلعله يزداد، وإما مسيئا فلعله يستتیب(المصدرالسابق)حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، قَالَ: أَتَيْنَا خَبَّابًا نَعُودُهُ، فَقَالَ: لَقَدْ طَالَ سَقْمِي، وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لَا تَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ» لَتَمَنَّيْتُهُ وَقَالَ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَيُؤْجَرُ فِي نَفَقَتِهِ كُلِّهَا، إِلَّا فِي التُّرَابِ» (ابن ماجه،۲,۱۳۹۴،رقم الحدیث:4163)
ان احادیث کوسامنے رکھئے،جس میں واضح اورتاکیدی الفاظ میں اللہ کے رسول نے موت کی تمنا سے منع کیاہے، دوسری حدیث میں اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ اگروہ نیک ہے تو جب تک زندہ ہے،نیکیاں بڑھیں گی اور اگربراہے توشاید اس کو توبہ کی توفیق ہوجائے،تیسری حدیث میں موت کی تمناسے اس لئے منع کیاگیاہے کہ انسان کے پاس اعمال کا تبھی تک موقع ہے جب تک سانس کی آمدورفت باقی ہے، سانس ختم ،نامۂ اعمال بند،لہذا جب تک زندہ ہیں، نیکیوں میں لگے رہیں،کیاان حدیثوں میں کہیں سے بھی کوئی اشارہ ملتاہے کہ بعض حالات میں موت کی تمنا کی اجازت ہے؟
لیکن شراح حدیث اس کو دنیوی ضرر سے مقید کرتے ہیں؛حالانکہ ظاہر حدیث میں اس کی جانب کوئی اشارہ نہیں ہے،امام نووی کے حوالہ سے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
قال النووي في الحديث التصريح بكراهة تمني الموت لضر نزل به من فاقة أو محنة بعدو ونحوه من مشاق الدنيا فأما إذا خاف ضررا أو فتنة في دينه فلا كراهة فيه لمفهوم هذا الحديث وقد فعله خلائق من السلف لذلك(فتح الباری،13/222)
امام نووی فرماتے ہیں کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ  کسی مصیبت جیسے فاقہ یا آزمائش وغیرہ دنیوی تکلیفوں کی وجہ سے موت کی تمنا کرنامکروہ ہے،لیکن اگر دینی ضرر یافتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوتو اس وقت موت کی تمنا کرنا مکروہ نہیں ہے،یہ بات اس حدیث کے مفہوم سے مستنبط ہے اور سلف میں سے ایک جماعت نےا یساکیاہے۔
 بڑے بڑے بزرگان دین اورائمہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے موت کی تمناکی ،حضرت علیؓ جب کوفہ والوں کی بدعہدی اورعدم اطاعت سے تنگ آگئے توانہوں نےموت کی دعاکی ،جیساکہ ابن کثیر رحمتہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں بیان کیاہے،[1] پھر جب امام بخاری ابناء وقت کی روش سے عاجز آگئے اورمستقل دربدری کا شکار ہوناپڑاتوانہوں نے بھی موت کی دعاکی ،چنانچہ امام عبدالقدوس بن عبدالجبار سمرقندی بیان کرتے ہیں۔
فسمعتہ لیلۃ من اللیالی وقد فرغ من صلوٰۃ الیل یدعو ویقول فی دعائہ اللھم انہ ضاقت علی الارض بمارحبت فاقبضنی الیک(تاریخ بغداد2/34،طبقات الشافعیۃ الکبر2/14)
ایک رات میں نے ان کودعاکرتے ہوئے سنا "اے اللہ زمین باوجود کشادہ ہونے کے مجھ پر تنگ ہوگئی ہے۔سوتو مجھے اپنی طرف اٹھالے۔
آپ اگرصرف ظاہر پرست ہیں تویقیناحضرت علیؓ اورامام بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان پر مخالفت حدیث کا الزام لگادیں گے؛ لیکن اگرخدا نے تفقہ اورالفاظ حدیث کی گہرائی میں چھپے معانی کے درمکنون وکنزمخفی کو سمجھنے کی لیاقت بخشی ہے توسمجھ جائیں گے کہ امام بخاری کایہ طرز عمل کسی بھی لحاظ سے خلاف حدیث نہیں ہے۔
چنانچہ حافظ ابن کثیر اس حدیث(تکلیف وپریشانی وجہ سے موت کی دعانہ کرنے کی)کوبیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں
اس سے مراد بدنی اوردنیاوی ضرر ہے۔اگرکوئی دینی آفت اورپریشانی ہو اوراس میں کوئی موت کی تمناکرے تو وہ درست اورجائز ہے۔(البدایہ والنہایہ1/19)
خیار بیع کی حدیث میں فہم کا اختلاف
اسی طرح دیکھئے ۔ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:البیعان بالخیارمالم یتفرقا(سنن ابی داؤد ،باب باب خِيار المتبايعين،حدیث نمبر: 3454)خریدورفروخت کرنے والوں کو اپناسودا  رد کرنے کا اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوجائیں۔
جمہور ائمہ نے اس ’’تفرق‘‘ سے تفرق بالابدان مراد لیاہے کہ دونوں کی مجلس ختم ہوجائے اوردونوں ایک دوسرے سے جسمانی لحاظ سے ہی الگ ہوجائیں، جب کہ امام مالک اورامام ابوحنیفہ نے مالم یتفرقا (جب تک وہ دونوں الگ نہ ہوجائیں )سے تفرق اقوال مراد لیاہے یعنی بیع وشراء کی بات ختم کرکے کوئی دوسری بات نہ کرنے لگیں ،تب تک ان کو سودا رد کرنے کا اختیار ہوگا۔
حدیث کے ظاہر مفہوم سے تو تفرق سے جسمانی تفرق ہی متبادرہے اور اسی پر اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا بھی عمل تھا (فیض الباری ،۳؍۴۲۳، دار الكتب العلمية بيروت – لبنان) لیکن تفرق سے تفرق بالاقوال کی بھی گنجائش موجود ہے، خود قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر تفرق سے تقرق اقوال مراد لیاگیاہے،مثلا قرآن کی آیت وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا(آل عمران:۱۰۳)میں تفرق سے تفرق اقوال ہی مراد ہےاوراسی بناء پر امام مالک اورامام ابوحنیفہ نے اس حدیث میں تفرق سے جسمانی جدائی مراد لیاہے،حدیث میں جب دونوں معنوں کا احتمال ہے توکسی ایک معنی پر عمل کرنا حدیث کی مخالفت نہیں ،بلکہ حدیث پر ہی عمل ہے لیکناسی حقیقت کونہ سمجھنے کی بناء پر امام مالک اورامام ابوحنیفہ پر مخالفت حدیث کا الزام لگادیاگیا؛بلکہ ابن ابی ذئب نے تویہاں تک کہہ دیاکہ امام مالک سے توبہ کرایاجائے اوراگر وہ توبہ نہ کریں تو ان کو قتل کردیاجائے۔( العلل للامام احمد 1|539، سیر اعلام النبلاء،7/142-143)اورایک مشہور محدث نے امام ابوحنیفہ کے اس مراد اورمفہوم کو مخالفت حدیث کے معنی میں لیااورجب امام ابوحنیفہ نے اپنی بات کی وضاحت اس طور پر کی کہ’’ اگر دونوں چھوٹی کشتی میں ہوں تو پھرتفرق بالابدان کیسے مراد ہوسکتاہے؟‘‘ اس کو انہوں نے حدیث کو رد کرنے کے معنی میں مراد لیااورامام ابوحنیفہ پر حدیث مسترد کرنے کی تہمت لگائی ۔ (اثرالحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاءص:۱۱۸)
جب کہ امام احمد نے اس حدیث میں باوجود اس کے کہ ان کا موقف بدنی اورجسمانی طورپر جدائی کاہے ،انہوں نے امام مالک کی جانب سے یہ  عذر پیش کیا۔
"مالک لم یرد الحدیث ولکن تاولہ علیٰ غیرذالک"( العلل ومعرفۃالرجال 1/22، المعرفة والتاريخ للامام یعقوب بن سفیان الفسوی1/686)’’امام مالک نے حدیث کو رد نہیں کیالیکن اس کی تاویل(تفسیر) دوسری کی‘‘،حضرت امام احمد بن حنبل کا یہ ارشاد نہایت قابل الحاظ ہے کہ انہوں نے حدیث کے دوسرے معانی ومفہوم مراد لئے جانے کو  جہاں حدیث کی تاویل(تفسیر)قراردیا،وہیں یہ بھی واضح کردیاکہ مشہور معنی کے خلاف دوسرے معنی مراد لینے کا مطلب حدیث کو رد کرنانہیں ہے۔
آج زمین کی طنابیں سمٹ چکی ہیں، دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے، پلک جھپکانے سے بھی کم وقت میں خبریں دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ رہی ہیں، کاروبار اورتجارت میں انٹرنیٹ ایک اہم بلکہ مرکزی حیثیت اختیار کرچکاہے،شیئر کی خریدوفروخت اس کے علاوہ دنیا بھر کی دیگر چیزیں آن لائن بکتی ہیں، کیاآج کے دور میں کوئی ’’تفرق بالابدان‘‘ کا تصورکرسکتاہے؟
اس موقع پر ایک علمی لطیفہ ذکر کردیتاہوں جس سے معلوم ہوگا کہ دوسروں کو گردش حالات سے ناواقفیت کا طعنہ دینے والے خود کتنے گردش ایام سے ناواقف ہوتے ہیں۔
وہ حضرات جوخود کو حدیث کی جانب منسوب کرتے ہیں، انہوں نے ہندوستان میں بطور خاص تاریخ بغداد کا وہ حصہ چھپوایا،جس میں امام ابوحنیفہ پر تنقید ہے(منشااور مقصد جاننے کیلئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں)،اس کے رد میں علامہ کوثری نے تانیب الخطیب لکھاجس میں واضح کیاکہ یہ تنقیدیں قابل اعتبار نہیں ہیں،تانیب الخطیب کے رد میں عبدالرحمن معلمی نے ’’التنکیل لمافی تانیب الکوثری من الاباطیل ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی، اس کتاب پر مقدمہ عبدالرزاق حمزہ نے لکھا ہے، موصوف علامہ کوثریؒ سے توناراض ہیں ہی، امام ابوحنیفہؒ سے بھی خاصے کبیدہ خاطر ہیں ، زیربحث حدیث کہ امام ابوحنیفہ نے مالم یتفرقا سے تفرق بالاقوال مراد لیا اور اس پر دلیل یہ کہہ کر دی کہ اگر وہ دونوں ایک چھوٹی سے کشتی میں ہوئے تو وہ دونوں جسمانی طورپر کیسے الگ ہوسکیں گے؟اس پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے عبدالرزاق حمزہ لکھتے ہیں:
ولو عاش أبو حنيفة حتى رأى الجواري المنشآت في البحر كالأعلام، التي هي مدن متحركة على ظهر البحر يضيع فيها الإنسان لسعتها وتعدد طبقاتها وغرفها، لعله كان لا يقول: كيف يفترقان؟ (التنکیل:۱؍۱۴۹)
اگرامام ابوحنیفہ زندہ رہتے اورآج کل کے دیوپیکرجہاز  اور سمندرکے سینے پر تیرتے شہروں کو دیکھتے ،جس کی وسعت حیران کن اور جو کئی منزلوں پر مشتمل ہوتی ہیں توشاید یہ نہ کہتے وہ کیسے جداہوں گے؟
جوش مخالفت میں عبدالرزاق حمزہ شاید بھول گئے کہ دیوپیکر پانی جہاز اُس دور میں بھی ہوتے تھے، اس دور میں بھی سمندری راستے سے دور دراز کا سفر کیاجاتاتھا اوریہ سفر چھوٹی کشتی میں ممکن نہیں تھا ؛بلکہ یہ بڑی کشتی میں ہی ہوسکتاتھا،جہاں مسافرکیلئے قیام وطعام کا انتظام رہتاتھا،مکہ سے مدینہ ہجرت ثانیہ کے موقع پر ۱۰۰؍صحابہ کرام نے ہجرت کیا تھا، کیا سو آدمیوں کو لے جانے والے کشتی چھوٹی رہی ہوگی؟حضورکی بعثت سے قبل ہندوستان سے مصالحہ جات اورہندوستانی تلوار یا لوہے عرب بھیجے جاتے تھے ،کیاہند وعرب کا یہ سفر چھوٹی کشتی سے طے کیاجاتاتھا؟عربی گھوڑے تک ہندوستان آتے تھے ؟کیا یہ گھوڑے چھوٹی کشتی پر لد کر آتے تھے،تاریخی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ عرب جہازراں عرب سے اپنالنگر اٹھاتے تھے تو ہندوستان میں آکر پڑائو ڈالتے تھے اور پھر ہندوستان سے وہ چین تک پہنچتے تھے،اتنالانبااورطویل سفر چھوٹی کشتی پر ممکن ہے؟اگر وہ قرآن میں غورکرتے تو پتہ چلتاکہ پانی کے بڑے جہاز کی ابتداء توحضرت نوحؑ بلکہ ان سے ماقبل کےدورمیں ہی ہوگیاتھا(تفصیل کیلئے دیکھئے عرب وہند کے تعلقات ،مولفہ علامہ سید سلیمان ندوی)
حضرت امام ابوحنیفہ کا مطلب یہ تھاکہ اگر دوشخص چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر دوتین گھنٹے کا سفر کررہے ہیں، اس دوران ان کے درمیان کوئی سودا اورلین دین ہوتاتوپھر اس میں تفرق اورجدائی کیسے ممکن ہے؟
عبدالرزاق حمزہ توامام ابوحنیفہ کو ناواقف بتارہے ہیں کہ ان کے سمندر کے سینے چیرتے دیوپیکر جہازوں کاعلم نہ تھالیکن کیاعبدالرزاق حمزہ کو خود یہ علم تھاکہ  کچھ ہی برسوں  بعد بعد انفارمیشن ٹکنالوجی کاایساانقلاب آنے والاہے ،جو تفرق بالابدان کو خواب وخیال بناکر رکھ دے گااوردنیا کی تجارت کا بڑاذریعہ تفرق بالابدان کے ذریعہ نہیں تفرق بالاقوال کے ذریعہ انجام پائے گا،تفرق بالابدان والے پیچھے رہ جائیں گے اورتفرق بالابدان کے قائلین کوبھی گھسٹ کر’’ولوحبواً‘‘ تفرق بالاقوال پر آناہی پڑے گا۔
مردہ زمین کو آباد کرنے کی حدیث میں امام ابوحنیفہ کی ایک زائد شرط
اسی قبیل کاحضرت امام ابوحنیفہ ؓ کا بھی واقعہ ہے جس کو حضرت قاضی امام ابویوسف نے اپنی بیش قیمت تصنیف ’’کتاب الخراج ‘‘میں نقل کیاہے:مشہور حدیث ہے کہ بنجر زمین کو جوآباد کرے زمین اس کی ہے،عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من أحيا أرضا مواتا فهي له(المعجم الاوسط للطبرانی4/247)جب کہ امام بخاری نے بهی اس حدیث كوتھوڑے سے اختلاف الفاظ كے ساتھ اس طورپر نقل کیاہے:عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من أعمر أرضا ليست لأحد فهو أحق(صحیح البخاری ،3/106)
عمومی طورپر فقہاء اورعلماء کاموقف یہ ہے کہ جو شخص کوئی بنجر زمین آباد کرے ،وہ اس کی ہے،اس کیلئے مزید کوئی شرط اور قید نہیں ہے اورظاہر حدیث سے بھی یہی پتہ چلتاہے لیکن امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے احادیث کے ان سارے ذخیرے پرنگاہ ڈالتے ہوئے جس میں بیع میں دھوکہ، جہالت اورہرایسی بات سے منع کیاگیاہے جس سے آگے چل کر تنازع ہو، اس میں یہ شرط بڑھادی ہے کہ یہ زمین اس وقت اس کی ہوگی ،جب وہ اس کیلئے امام سے اجازت لے،امام اورحاکم وقت سے اجازت لینے کےبعد ہرقسم کے جھگڑے کا تصفیہ بآسانی ممکن ہے،ورنہ ہرشخص دعویٰ کرتا پھرے گا کہ فلاں زمین جو آباد ہوئی ہے وہ میری آباد کی ہوئی ہوئی ہے۔
امام ابویوسف ؓ اس بارے میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قَدْ كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ يَقُولُ: مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَوَاتًا فَهَل لَهُ إِذَا أَجَازَهُ الإِمَامُ، وَمَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَوَاتًا بِغَيْرِ إِذْنِ الْإِمَامِ فَلَيْسَتْ لَهُ، وَلِلإِمَامِ أَنْ يُخْرِجَهَا مِنْ يَدِهِ وَيَصْنَعَ فِيهَا مَا رأى من الْإِجَازَة وَالإِقْطَاعِ وَغَيْرِ ذَلِكَ. قِيلَ لأَبِي يُوسُفَ: مَا يَنْبَغِي لأَبِي حَنِيفَةَ أَنْ يَكُونَ قَدْ قَالَ هَذَا إِلا مِنْ شَيْءٍ لأَنَّ الْحَدِيثَ قَدْ جَاءَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّه قَالَ: "مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَوَاتًا فَهِيَ لَهُ"؛ فَبَيَّنَ لَنَا ذَلِكَ الشَّيْءَ فَإنَّا نرجو أَنْ تَكُونَ قَدْ سَمِعْتَ مِنْهُ فِي هَذَا شَيْئًا يُحْتَجُّ بِهِ.
قَالَ أَبُو يُوسُف: حُجَّتُهُ فِي ذَلِكَ أَنْ يَقُولَ: الإِحْيَاءُ لَا يَكُونُ إِلا بِإِذْنِ الإِمَام. أَرَأَيْت رجلَيْنِ أَرَادَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَنْ يَخْتَارَ مَوْضِعًا وَاحِدًا وَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَنَعَ صَاحِبَهُ، أَيُّهُمَا أَحَقُّ بِهِ؟ أَرَأَيْتَ إِنْ أَرَادَ رَجُلٌ أَنْ يُحْيِيَ أَرْضًا مَيْتَةً بِفِنَاءِ رَجُلٍ وَهُوَ مقرّ أَن لَا حق لَهُ فيِهَا فَقَالَ: لَا تُحْيِهَا فَإِنَّهَا بِفِنَائِي؛ وَذَلِكَ يَضُرُّنِي. فَإِنَّمَا جَعَلَ أَبُو حَنِيفَةَ إِذْنَ الْإِمَامِ فِي ذَلِك هَهُنَا فَصْلا بَيْنَ النَّاسِ؛ فَإِذَا أَذِنَ الْإِمَامُ فِي ذَلِكَ لإِنْسَانٍ كَانَ لَهُ أَن يُحْيِيهَا، وَكَانَ ذَلِكَ الإِذْنُ جَائِزًا مُسْتَقِيمًا.وَإِذَا مَنَعَ الإِمَامُ أَحَدًا كَانَ ذَلِكَ الْمَنْعُ جَائِزًا، وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ النَّاسِ التَّشَاحُّ فِي الْمَوْضِعِ الْوَاحِدِ وَلا الضِّرَارُ فِيهِ مَعَ إِذْنِ الإِمَامِ وَمَنْعِهِ.
 (الخراج المؤلف : أبو يوسف يعقوب بن إبراهيم المتوفى : 182هـ،الناشر : المكتبة الأزهرية للتراث ص77)
امام ابوحنیفہؓ  فرماتے تھے :جس کسی نے بنجر زمین کو آباد کیا تووہ اس کی اس وقت ہوگی جب وہ اس کیلئے امام وقت سے اجازت لے اور جس نے امام وقت کی اجازت کے بغیر زمین کو آباد کیاتوزمین اس کی نہیں ہوگی اورامام کو حق ہے کہ اس آباد زمین سے اس شخص کو بے دخل کردے اوراپنے صوابدید پر عمل کرے کہ یہ زمین آباد کرنے والے کو بخش دے یاکسی دوسرے کو دے دے۔
امام ابویوسف سے کہاگیاکہ امام ابوحنیفہ نے یہ بات کسی مضبوط بنیاد پر ہی کہی ہوگی کیونکہ رسول اللہﷺ کی تو حدیث ہے :جس نے بنجر زمین کو آباد کیا(قابل کاشت بنایا)وہ اس کی ہے ،توہمارے لئے امام ابوحنیفہ کےق ول کی دلیل بیان کریں ،ہمیں امید ہے کہ آپ نے امام ابوحنیفہ سے ان کی دلیل کے بارے میں ضرور سناہوگا۔
امام ابویوسف فرماتے ہیں ،ان کی دلیل اس بارے میں یہ ہے کہ بنجر زمین کی آبادکاری سے ملکیت امام کی اجازت پر موقوف اس لئے ہے کہ اگر دوشخص ایک ہی بنجر زمین کو آباد کرنے کاارادہ کریں اورہرایک دوسرے کو زمین آباد کرنے سے منع کرے توآپ کا کیاخیال ہے کہ اس زمین کو آباد کرنے کا زیادہ حق کسے ہے؟آپ اس مسئلہ کے بارے میں کہاکہیں گے کہ کسی شخص نےایسے بنجر زمین کی آبادکاری کا ارادہ کیا جودوسرے شخص کے گھر کے صحن سے متصل ہے اور گھروالے کو اعتراف ہے کہ بنجر زمین میں اس کا کوئی حق نہیں ہے لیکن وہ زمین آباد کرنے والے سے کہتاہے ،اس زمین کو آباد مت کرو،کیونکہ وہ میرے صحن سے متصل ہے اورتمہارے اس زمین کو آباد کرنے سے مجھے نقصان ہوگا،انہی سب وجوہات کی بناء پر امام ابوحنیفہؒ نے لوگوں کے درمیان تصفیہ کیلئے امام کی اجازت کی شرط ٹھہرائی ہے ،جب امام کسی انسان کو زمین آباد کرنے کی اجازت دے دے تواس کوزمین آباد کرنے کا پورا حق حاصل ہوجائے گااوریہ اجازت بھی جائز اور درست ہوگی اوراگرامام کسی کو زمین کی آباد کاری سے منع کردے تویہ منع کرنا بھی جائز ہوگا اورایک ہی زمین کے ٹکرے کو آباد کرنے کے سلسلے میں لوگوں کےد رمیان جھگڑا اورتنازع بھی نہیں ہوگا اور امام کے اجازت دینے اورمنع کرنے سے کسی کو نقصان بھی نہیں ہوگا۔
آگے چل کر امام ابویوسف مخالفت حدیث کے ضمن میں بڑی قیمتی بات ارشاد فرماتے ہیں کہ حدیث کی مخالفت کب ہوتی ہے اورحدیث کی مخالفت کسے کہتے ہیں،مخالفت حدیث کی حقیقت ہے :
وَلَيْسَ مَا قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ يَرُدُّ الأَثَرَ إِنَّمَا رَدُّ الأَثَرِ أَنْ يَقُولَ: إِن أَحْيَانًا بِإِذْنِ الإِمَامِ فَلَيْسَتْ لَهُ؛ فَأَمَّا مَنْ يَقُولُ هِيَ لَهُ فَهَذَا اتِّبَاعُ الأَثَرِ وَلَكِنْ بِإِذْنِ الْإِمَامِ لِيَكُونَ إِذْنُهُ فَصْلا فِيمَا بَيْنَهُمْ ن خصوماتهم وإضرار بَعضهم بعض۔(المصدرالسابق)
امام ابوحنیفہ کا یہ طرزعمل حدیث کی تردید یااس کی مخالفت نہیں ہے ،حدیث کی مخالفت تب ہوتی جب وہ کہتے کہ چاہے وہ امام سے اجازت کیوں نہ لے چکاہو،تب بھی زمین اس کی نہیں ہوگی ،امام ابوحنیفہ کااجتہادحدیث کی پیروی ہے ،اذن امام کی شرط اس لئے ہے کہ ان کے درمیان تنازع میں فیصلہ کیاجاسکے اورکسی کو نقصان نہ پہونچے۔(جس کی تاکید دیگر احادیث میں آئی ہے)
آپ کوئی غیرمنقولہ شے خریدتے ہیں توحکومت درمیان میں نہیں آتی ،لیکن زمین کے خریدوفروخت میں رجسٹری کا نظام پوری دنیا میں عام ہے،رجسٹری کی حقیقت کیاہے،حاکم وقت کی اجازت ہی تو ہے،امام ابوحنیفہ نے جوبات آج سے صدیوں قبل فرمائی تھی اور جس بناء پر فرمائی تھی، آج پوری دنیا میں اسی کا چلن ہے ،اورجن حضرات نے امام ابوحنیفہ کی اس بات کو مخالفت حدیث کے ضمن میں کیاتھا، ان کی بات پر دنیا میں کہیں عمل نہیں ہے، ان حضرات کی جانب خود کومنسوب کرنے والے بھی خواہی نخواہی بالواسطہ طورپر امام ابوحنیفہ کے ارشادپر عمل کرنے پر مجبور ہیں۔
اجازت دیجئے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کی شان میں وہ قطعہ لکھاجائے، جو اقبال نے مرد دوربیں وپیش بیں کیلئے کہاتھا۔
دوصددانا دریں محفل سخت
سخن نازک ترازبرگ سمن گفت
ولے بامن بگو آن دیدہ ورکیست
کہ خارے وید واحوال چمن گفت

امام ابوحنیفہؓ کا مسئلہ کی تہہ تک پہنچا
امام ابوحنیفہ کاایک واقعہ مزید ذکر کیاجاتاہے تاکہ پتہ چلے کہ فقہ کسے کہتے ہیں،اورکلام کی روح تک پہنچناکس کو کہتے ہیں۔
علی بن مسہر کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی مجلس لگی ہوئی تھی۔ عبداللہ بن مبارک آئے اوریہ مسئلہ پوچھاکہ ایک شخص ہانڈی پکارہاتھاکہ ایک چڑیاااس میں گری اورمرگئی۔تواس کا کیاحکم ہوگا۔امام ابوحنیفہ نے اپنے شاگردوں اورمجلس میں موجود لوگوں سے مسئلہ بتانے کوکہا۔انہوں نے حضرت ابن عباس کی روایت بیان کی کہ شوربہ کو بہادیاجائے گا اورگوشت کھالیاجائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایاکہ ہم بھی یہی کہتے ہیں لیکن ایک شرط کے ساتھ۔ وہ شرط یہ ہے کہ اگر ہانڈی حالت جوش میں نہ ہو یعنی ہانڈی کے اندر پک رہاشوربہ خوب گرم نہ ہو تواسی روایت پر عمل ہوگالیکن اگر شوربہ بہت گرم ہوگا تو پھر شوربہ بھی بہادیاجائے گااورگوشت بھی نہیں کھایاجائے گااوراس کی وجہ یہ ہے کہ سکون کی حالت میں چریاکے گرنے سے ہانڈی میں موجود گوشت کے ٹکروں پر کوئی اثر نہیں پڑتالیکن اگرہانڈی ابل رہی ہو تو جوشوربہ مردہ چڑیا کے اعضاسے لگے گا وہ ہانڈی میں موجود گوشت کے دیگر ٹکروں تک سرایات کرجائے گاجیساکہ سرکہ اور اورپانی سرایت کرجاتاہے۔اس لئے گوشت اورشوربہ دونوں کو ضائع کردیاجائے گا۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مبارک نے فرمایا’’ زریں‘‘ ۔زرین فارسی کا جملہ ہے اسکا معنی سونے کے ہیں۔(الانتقاء ص۱۵۶)
مطلب یہ ہے کہ یہ کلام سونے کے مثل ہے۔ جیساکہ آج بھی ہم کسی اچھی بات پر کہتے ہیں کہ اسے سونے کے پانی سے لکھاجاناچاہئے۔
حدیث کے ظاہر پر عمل سے امام شافعیؓ کی معذوری
سنن فطرت یعنی فطری طورپر جوانسان کو کرناچاہئے اس میں سے ایک بغل کے بالوں کو ختم کرنابھی ہے۔حدیث کے اندر اس کے بارے میں الفاظ آئے ہیں۔"نتف الابط" (موطأ الإمام مالك (المتوفى: 179هـ،الناشر: دار إحياء التراث العربي، عام النشر: 1406 هـ - 1985 م)
 نتف کے معنی اکھاڑنے اورموچنے کے ہیں۔تو حدیث کے لحاظ سے اورظاہری مطلب تویہ ہے کہ ہرمسلمان جو بغل کے بال بلیڈ سے مونڈتاہے ،وہ ارشاد رسول کی مخالفت کرتاہے اب بتائیے کہ کتنے مسلمان مخالفت حدیث کے الزام سے بچیں گےاورخود احناف کو مخالف حدیث کا طعنہ دینے والے ہمارے یہ مدعیان عمل بالحدیث میں سے کتنے اس ارشاد رسول پرلفظی عمل کرتے ہیں۔ 
عن يونس بن عبد الأعلى قال دخلت على الشافعي ورجل يحلق إبطه فقال إني علمت أن السنة النتف ولكن لا أقوى على الوجع(فتح الباري شرح صحيح البخاري،الناشر: دار المعرفة - بيروت، 1379،۱۰؍۳۴۴)
یونس بن عبدالاعلیٰ فرماتے ہیں کہ امام شافعیؓ کے یہاں گیا،اس وقت امام شافعی کسی دوسرے شخص کے ذریعہ اپنے زیربغل کے بالوں کو مونڈوارہے تھے،میرے استفسار کرنے پر فرمایا:میں جانتاہوں کہ سنت بغل کے بالوں کا اکھاڑناہی ہے، لیکن میں درد برداشت نہیں کرسکتا۔
امام غزالی اس تعلق سے فرماتے ہیں:
بغل کے بالوں کا اکھاڑناابتداء میں تکلیف دہ ہوتاہے لیکن جب اس کی عادت پڑجاتی ہے تواس میں تکلیف زیادہ نہیں ہوتی،مزید فرماتے ہیں کہ مقصود چونکہ پاکی ونظافت ہے اور وہ حلق (مونڈنے) سے بھی حاصل ہوجاتی ہے۔
قال الغزالي هو في الابتداء موجع ولكن يسهل على من اعتاده قال والحلق كاف لأن المقصود النظافة (المصدرالسابق)
امام ابن دقیق العید فرماتے ہیں:اس حدیث میں جس نے لفظ کی جانب دھیان دیا تواس کی رائے میں بغل کے بالوں کااکھاڑنا ضروری ٹہرا اور جس کی نظر معنی کی جانب گئی اس کی رائے یہ ہوئی کہ جس چیز سے بھی بغل کے بالوں کو ہٹایاجائے،جائز ہے۔
وقال بن دقيق العيد: من نظر إلى اللفظ وقف مع النتف ومن نظر إلى المعنى أجازه بكل مزيل (المصدر السابق)
ابن دقیق العید کہتے ہیں :جس نے لفظ کے ظاہر کی جانب توجہ کی تواس نے نتف(بالوں کے اکھاڑنے)کو ہی اختیار کیا اورجس نے معنی کی جانب توجہ کی تواس نے بالوں کو ہٹانے کی ہرممکن تدبیر کو جائز قراردیا۔
ظاہر حدیث پر عمل سے قبلہ کی بے حرمتی کا اندیشہ
مشہور حدیث ہے جس میں بتایاگیاہے کہ استنجاء کے وقت رخ کس طرف ہوناچاہئے حدیث میں آتاہے، شرقوا اوغربوا(سند الإمام أحمد بن حنبل،الناشر: مؤسسة الرسالة،رقم الحدیث: 23579)مشرق یامغرب کی طرف رخ کرلو۔
لیکن دیکھئے ہم سبھی برصغیر کے رہنے والے اپنے بیت الخلاء کا رخ جنوب وشمال کرتے ہیں۔کیایہ حدیث کی بظاہر مخالفت نہیں ہے؟اگرکوئی کم فہم ہوگاتویہی سمجھے گا ؛لیکن جسے خدا نے عقل دیاہے وہ جان لے گاکہ اس ارشاد رسول کا پس منظرکیاہے اورمنشائے رسول کیاہے۔
دراصل یہ حکم اہل مدینہ کو اوران کے ساتھ ایسے لوگوں کو دیاگیاتھاجن کا قبلہ جنوب یاشمال میں پڑتاہے توان کو کہاگیا ہےاستنجاء کے وقت وہ اپنارخ مغرب یامشرق کی طرف کرلیں،یعنی اصل مقصد قبلہ کااحترام ہے،اب ہم لوگ جو ہندوستان وپاکستان اوربنگلہ دیش یاوہ ممالک جن کاقبلہ مغرب میں پڑتاہے، وہ اس حدیث کے ظاہر پر عمل کریں گے تو بتائیے یہ منشائے رسول کی خلاف ورزی ہوگی یانہیں؟ کبھی ظاہر حدیث پر عمل کرنامنشائے رسول کی خلاف ورزی کی زمرے میں آتاہے اورحدیث پر عمل تبھی ہوسکتاہے جب حدیث کے ظاہر کو چھوڑتے ہوئے اصل مقصد اورروح شریعت کے مطابق عمل کیاجائے۔



[1] : البداية والنهاية۷؍۳۵۸، دار إحياء التراث العربي

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔