Pages

Monday 9 October 2017

فہم حدیث میں اختلاف کا جائزہ قسط نمبر۲

اصول حدیث واستدلال بالحدیث میں الگ راہ حدیث کی مخالفت نہیں
یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ حدیث پرعمل کرنے میں ہرامام نے اپنے علم اورفکر ونظر کے مطابق ایک رائے اختیار کی ہے،کسی مجتہد کی رائے سے اوراس کے فکر ونظرسے ہمیں دلائل کی بنیادپر اختلاف ہوسکتاہے ؛لیکن ہمارااختلاف اس بات کی بنیاد نہیں بن سکتا کہ ہم جس کی فکر ونظر سے اختلاف کریں، اسے حدیث کی مخالفت کرنے والا کہیں،یااس جیساکوئی سنگین الزام اس پر لگائیں۔
۱           ائمہ حدیث میں اصول حدیث کے سلسلے میں صدہااختلافات ہیں،امام مسلم محض معاصرت کو صحت روایت کیلئے کافی مانتے ہیں[1] اور امام بخاری کم سے کم ایک بار ملاقات کی شرط لگاتے ہیں[2]، اس شرط پر امام مسلم نے اپنے صحیح کے مقدمہ میں جس تلخ انداز میں اظہار خیال کیاہے اوراس فکر کے قائلین کو’’ نام نہاد محدث‘‘ تک کہنے پر ہی بس نہیں کیا بلکہ اس قول کواسلاف محدثین کے متفقہ اصول کے خلاف بتایا[3]:
یہ بھی بتایاکہ اگران کے اس شرط کو صحت حدیث  کیلئے تسلیم کیاجائے تو بہت ساری احادیث جو صحیح ہیں،انہیں ضعیف کہنا پڑے گا،ان سب کے باوجود امام مسلم نے اس قول کے قائلین کو مخالف حدیث یامنکر نہیں کہا،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حدیث کے جو اصول ائمہ نے وضع کئے ہیں وہ قرآن کی آیت یاارشاد رسول نہیں ہے ;بلکہ یہ ائمہ حدیث کے اجتہادات ہیں،اورجس طرح ائمہ حدیث نے ایک اجتہاد کیا،اسی طرح بعد کے ائمہ حدیث کوبھی اصول حدیث میں اجتہاد کاحق حاصل ہے۔[4]، امام شافعی مرسل روایات کوعمومی طورپر حجت تسلیم نہیں کرتے[5]،اس پر امام امام ابوداؤد اورامام طبری کا تبصرہ یہ ہے کہ مرسل حدیث کا انکار کرنے والے پہلے فرد امام شافعی ہیں، اس سے قبل علماء مرسل احادیث کو قبول کرتے چلے آئے ہیں4۔ احادیث کی ایک بڑی تعداد بلکہ نصف بھی اگرکہاجائے تو بے جانہ ہوگا، مرسل احادیث ہیں،سعید بن المسیب مشہور تابعی ہیں، ان کے نزدیک صحابی اس کو کہیں گے جس نے دوتین سال آنحضرت صلی اللہ علیہ کی صحبت کا شرف اٹھایاہو[6]،کوئی شک نہیں کہ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیاجائے توبہت سارے صحابہ کرام دائرہ صحابیت سے خارج ہوجائیں گے اوران کی احادیث غیرمعتبر ہوجائیں گی ؛لیکن اس قول کی بناء پر کسی نے سعید بن المسیب کو مخالف حدیث نہیں کہا۔، اسی طرح بعض اصول حدیث میں جمہورمحدثین سے اختلاف کی بنیاد پر احناف کو حدیث کامخالف یاائمہ احناف کے بارے کہناکہ وہ حدیث کی مخالفت کرتے ہیں،نہایت غلط اورغیرعلمی بات ہے۔
۲          راویوں کی جرح وتعدیل میں شدید اختلاف ہےابن اسحاق کو شعبہ امیرالمومنین فی الحدیث کہتے ہیں[7] اورامام بخاری کے خا ص شاگرد فریابی ان کو زندیق کہتے ہیں[8]،جابر جعفی کو امام ابوحنیفہ اکذب الناس سب سے بڑاجھوٹا کہتے ہیں،[9] سفیان ثوری اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں،اورحضرت شعبہ کو دھمکاتے ہیں کہ اگر تم نے جابر میں کلام کیا تومیں تم پر کلام کروں گا، اور یہ کہ حدیث میں انہوں نے جابر سے زیادہ پرہیزگار اورمحتاط نہیں دیکھا،[10]اس طرح کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، جہاں روات پر حکم لگانے میں محدثین کا آپس میں شدید اختلاف ہے،لیکن اس بنیاد پر کسی نے کسی کو مخالف حدیث یاآنحضرت ﷺ کےار شادات کی مخالفت کرنے والانہیں کہا۔
۳          حدیث پر صحت وضعف کا حکم لگانے میں سنگین اختلافات ہیں،ایک حدیث کو ایک محدث صحیح کہتاہے اور دوسرااس کو باطل سمجھتاہے ؛ لیکن ان اختلافات کی وجہ سے کسی کے بارے میں عمومی طورپر یہ بات نہیں کہی جاتی ہے کہ وہ حدیث کا مخالف ہے۔
 ایسے ہی حدیث پر عمل کے سلسلے میں اگرائمہ اربعہ یادیگر مجتہدین نے اپنے کچھ اصول اپنے علم وفکر کی روشنی میں وضع کئے ہیں تواس کا بھی احترام کیاجاناچاہئے۔
ترک حدیث کے اسباب:
ائمہ کرام کامقام ومرتبہ اس سے بدرجہابلند ہے کہ وہ جان بوجھ کر کسی حدیث کی مخالفت کریں یاکسی حدیث کے خلاف اپنی رائے دیں، اگر ان کی کوئی رائے حدیث کے خلاف ہوتی ہے تواس کے اپنے اسباب اوروجوہات ہیں جس کو ائمہ اعلام نے تفصیل سے اپنی کتابوں میں ذکر کیاہےاورجس کو اصول فقہ کی کتابوں میں دیکھاجاسکتاہے،حا فظ ابن عبدالبر نے مختصر الفاظ میں اس کی بہترین وضاحت کی ہے کہ کسی بھی امام کے کسی حدیث کو ترک کرنے کے اسباب اور وجوہ کیاہوتی ہیں:
وَمَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَّا وَلَهُ تَأْوِيلٌ فِي آيَةٍ أَوْ مَذْهَبٌ فِي سُنَّةٍ رَدَّ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْمَذْهَبِ بِسُنَّةٍ أُخْرَى بِتَأْوِيلٍ سَائِغٍ أَوِ ادِّعَاءِ نَسْخٍ(جامع بیان العلم وفضلہ،۲/۱۰۸۳)
میں کسی اہل علم کو نہیں جانتاکہ جنہوں نے کسی آیت کو یاحدیث کو رد کیااوراپنے موقف کے اثبات کیلئے ان کے پاس اس آیت یاحدیث کا دوسرامطلب اوراصول اخذ واستدلال نہ ہو یااس کی نگاہ میں وہ آیت یاحدیث منسوخ نہ ہو۔
ایک دوسری جگہ ابن عبدالبر کہتے ہیں:
قَالَ أَبُو عُمَرَ: «لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ عُلَمَاءِ الْأُمَّةِ يُثْبِتُ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَرُدُّهُ دُونَ ادِّعَاءِ نَسْخِ ذَلِكَ بِأَثَرٍ مِثْلِهِ أَوْ بِإِجْمَاعٍ أَوْ بِعَمَلٍ يَجِبُ عَلَى أَصْلِهِ الِانْقِيَادُ إِلَيْهِ أَوْ طَعْنٍ فِي سَنَدِهِ، وَلَوْ فَعَلَ ذَلِكَ أَحَدٌ سَقَطَتْ عَدَالَتُهُ فَضْلًا عَنْ أَنْ يُتَّخَذَ إِمَامًا وَلَزِمَهُ اسْمُ الْفِسْقِ۔(جامع بیان العلم وفضلہ،۲/۱۰۸۱)
ابوعمرکہتے ہیں :علمائے امت میں سے کوئی ایسانہیں ہے کہ رسول اللہﷺ کی کوئی حدیث اس کے نزدیک ثابت ہوجائے پھر وہ اس کو رد کردے ،حدیث کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ یاتو اس کے نزدیک اسی طرح کی دوسری حدیث کی روشنی میں یااجماع کی وجہ سے منسوخ ہوتی ہے یاوہ کسی اصول کے خلاف ہوتاہے جس کی پابندی ضروری ہوتی ہے،یااس حدیث کی سند میں کوئی خرابی ہوتی ہے، اگربغیر کسی وجہ سے کوئی حدیث رد کردے تواس سے اس کی عدالت ہی ساقط ہوجائے گی چہ جائے کہ اس کو دین میں امام بنایاجائے اوراس پرفسق کا ٹھپہ لگ جائے گا۔
حضرت ابن تیمیہؒ  بھی یہی کہتے ہیں کہ جو ائمہ مجتہدین پر یہ الزام لگاتاہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر احادیث کی مخالفت کی ہے توا یسا شخص یاتو نفس پرست ہے یاپھر محض اپنے گمان سےیہ بات کہہ رہاہے[11]۔
جولوگ مجتہدین کرام پر مخالفت حدیث کاالزام لگاتے ہیں ان کے بارے میں حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
هَذَا تَحَامُلٌ وَجَهْلٌ وَاغْتِيَابٌ وَأَذًي لِلْعُلَمَاءِ؛ لِأَنَّهُ إِذَا كَانَ لَهُ فِي النَّازِلَةِ كِتَابٌ مَنْصُوصٌ وَأَثَرٌ ثَابِتٌ لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ بِغَيْرِ ذَلِكَ فَيُخَالِفُ النَّصَ وَالنَّصُّ مَالَا يَحْتَمِلُهُ التَّأْوِيلُ وَمَا احْتَمِلَهُ التَّأْوِيلُ عَلَى الْأُصُولِ وَاللِّسَانِ الْعَرَبِيِّ كَانَ صَاحِبُهُ مَعْذُورًا((جامع بیان العلم وفضلہ،۲/895)
یہ سب جہالت، شخصیت پر حملہ ،غیبت اورعلماء کو تکلیف پہنچاناہے،کیونکہ کسی بھی مسئلہ میں جب قرآن پاک یاحدیث رسول میں کوئی حکم موجود ہوتوکوئی بھی اس حکم کی مخالف نہیں کرتا اورنص اس کو کہتے ہیں جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو اور جس میں تاویل کی اصول فقہ ،عربی زبان کے قواعد کے مطابق گنجائش ہو تو پھر ایساتاویل کرنے والا(اگرچہ غلطی پر ہو )معذور ہوگا۔
عمل بالحدیث کاہرایک کا منفرد انداز ہے
فقہاء کرام میں کے اختلاف میں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ حدیث پر عمل کرنے کی شرائط وقیود میں جہاں ان میں اختلاف ہے، وہیں حدیث سے استدلال واستنباط کے سلسلے میں بھی ان میں نقطہ نظرکااختلاف ہے،امام احمدحتی الامکان ظاہر الفاظ سے قریب رہناچاہتے ہیں، امام شافعی صحت سند کاخیال رکھتے ہیں ،وہ اس حدیث پر عمل کرناچاہتے ہیں جواس باب میں سب سے زیادہ صحیح ہو، امام مالک حدیث کے ساتھ ساتھ عمل اہل مدینہ کا بھی خیال رکھتے ہیں اوراگر حدیث وعمل اہل مدینہ میں ٹکرائو ہوتاہے تو وہ عمل اہل مدینہ کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ حدیث ایک راوی کے واسطے سے آتی ہے اوریہاں پورے مدینہ کے افراد کا تعامل ہے۔
امام ابوحنیفہ کا طرز ان سب سے الگ ہے،امام ابوحنیفہ کا احادیث کے باب میں طرز عمل یہ ہے کہ وہ اس باب کی تمام حدیثوں کو جمع کرتے ہیں، پھر وہ دیکھتے ہیں کہ اس میں سے کون سے حدیث ایسی ہے جو جامع  ہے اورقاعدہ کلیہ بننے کی حیثیت رکھتی ہے اورپھر اسی پر اپنے اجتہاد کی بنیاد رکھتے ہیں، اگرچہ وہ حدیث سند کے لحاظ سے کمزور ہو اوربقیہ احادیث کی تاویل کرتے ہیں۔
حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ امام ابوحنیفہ کے عمل بالحدیث کے طریقہ ٔ کار کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اورامام اعظم نے اورآپ کے تابعین نے جو امر اختیار کیاہے وہ نہایت صاف ظاہر ہے اوربیان اس امر کا یہ ہے کہ جب ہم نے تحقیق کی توشریعت میں دوقسم کے احکام پائے ،ایک قسم قواعد کلیہ ہے اور وہ جامع ومانع ہے مثلاہمارا یہ قول ہے کہ’ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے گناہ میں ماخوذ نہ ہوگا‘اوریہ قول ہے کہ’ غنم بسبب غرم کے ہیں‘ اوریہ قول ہے کہ ’خراج بسبب ضمان کے ہے ‘اوریہ قول ہے کہ ’عتاق یعنی آزاد کرنا فسخ نہیں ہوسکتا‘ اوریہ قول ہے کہ ’بیع کامل ہوتاہے ایجاب وقبول سے‘ اوریہ قول ہے کہ’ گواہ مدعی کیلئے ہے اورقسم منکر پر ہوتی ہے‘ اورایسے ہی اوربھی بے شمار اقوال ہیں۔
اورایک قسم احکام کی وہ جو حوادث جزئیہ اوراسباب مختصہ میں وارد ہوا،گویا اس قسم کا حکم بمنزلہ استثناکے ہے، ان کلیات سے جو احکام کی قسم اول ہے اورجس کا ذکر ابھی اوپر ہواہے تومجتہد پر واجب ہے کہ ان کلیات کو محفوظ رکھے اورجو امور ان کلیات کے خلاف ہوں، ان کو ترک کرے،اس واسطے کے شریعت حقیقت میں عبارت اسی کلیات سے ہے اورجواحکام اس کلیات کے خلاف ہیں کہ اس کے اسباب اورمختصات ہمارے نزدیک یقینی طورپر ثابت نہیں ،وہ قابل اعتبار نہیں اورمثال اس کی یہ ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب بیع میں کوئی شرط فاسد ہوتو وہ بیع باطل ہوجاتی ہے اورحضرت جابرؓ کے حال میں جو وارد ہواہے کہ انہوں نے اونٹ فروخت کیا اور شرط کرلی کہ یہ اونٹ ہمارے مصر ف میں مدینہ منورہ تک رہے گا تویہ قصہ شخصیہ جزئیہ معارض واسطے قاعدہ کلیہ مذکورہ کے نہ ہوگا اورایساہی حدیث’ مصراۃ‘ اس قاعدہ کلیہ کے معارض نہ ہوگی جوقاعدہ کلیہ قطعی طورپر شروع میں ثابت ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ غنم بسب غرم کے ہے ،اورایسے ہی اوربھی مسائل ہیں اوراس سے لازم آتاہے کہ بہت سے ایسی احادیث پر عمل نہیں ہوتا جن میں ایسے امور جزئیہ کا ذکر ہے جو حنفی مذہب کے کسی قاعدہ کلیہ کے خلاف ہیں لیکن علماء حنفیہ اس کا خیال نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اوریہی کوشش رہتی ہے کہ تاامکان جزئیات ان کلیات میں مندرج رہیں۔(فتاوی عزیزی ، صفحہ ۴۳۰،مطبع:سعید ایچ ایم کمپنی،پاکستان،سنہ اشاعت:۱۴۰۸ھ)
اگرکسی باب میں امام ابوحنیفہ کو کوئی جامع اور قاعدہ کلیہ والی حدیث نہیں ملتی توآپ اس باب کے متعلق قرآن کریم کی آیت اوراحادیث کوجمع فرماتے ہیں اورمجموعی طورپر جو بات ثابت ہوتی ہے اس کو اختیار کرلیتے ہیں اورانفرادی طورپر اس کے خلاف کوئی حدیث واردہو تواس کی تاویل فرماتے ہیں اوراس کے ظاہر پر عمل نہیں کرتے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس طرزعمل کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
قَالَ أَبُو عُمَرَ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ اسْتَجَازُوا الطَّعْنَ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ لِرَدِّهِ كَثِيرًا مِنْ أَخْبَارِ الآحَادِ الْعُدُولِ لأَنَّهُ كَانَ يَذْهَبُ فِي ذَلِكَ إِلَى عَرْضِهَا عَلَى مَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ مِنَ الأَحَادِيثِ وَمَعَانِي الْقُرْآنِ فَمَا شَذَّ عَنْ ذَلِكَ رَدَّهُ وَسَمَّاهُ شَاذًّا(الانتقاء،۱؍۱۴۹)
ابوعمرکہتے ہیں کہ  بہت سارے اہل حدیث حضرات نے امام ابوحنیفہ پر اس وجہ سے طعن کیاکہ آپ کا حدیث پر عمل کرنے کا طرزان سے الگ تھا،آپ کا طرزیہ تھاکہ آپ ایک باب کی تمام احادیث اوراس سے متعلق قرآن کی آیات سے جومجموعی   مفہوم پیداہوتاتھا،اس  پر عمل کرتے تھے اوراس کے خلاف احادیث کو شاذ فرماتے تھے۔
ابن عبدالبر اورشاہ عبدالعزیز رحمہمااللہ کے کلام سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حدیث سے استنباط واستدلال کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ کی اپنی ایک مستقل رائے ہے،جس کو وہ پیش نظر رکھتے ہیں، اس پر بات ہوسکتی ہے کہ یہ نظریہ کہاں تک صحیح اورکہاں تک غلط ہے، یہ نظریہ راجح ہے یامرجوح ہے، دلائل کے لحاظ سے قوی ہےیاضعیف ہے، لیکن دلائل کی بنیاد پر (خواہ وہ معترضین کی نگاہ میں ناقابل توجہ ہی کیوں نہ ہوں)حدیث سے استنباط واستدلال کیلئے ایک الگ راہ متعین کرنے پر کسی کو حدیث کا مخالف قراردینادرست نہیں ہوگا،اورکسی کو اگراصرار ہی ہے کہ امام ابوحنیفہ کو اس وجہ سے مخالف حدیث قراردیاجائے تو یہ سلسلہ دور تک چلے گا ۔
بات نکلی ہے تو پھر دور تلک جائے گی۔
حدیث کو سمجھنے میں اختلاف
ایسابھی ہوتاہے اور ہوا ہے کہ بسااوقات حدیث اپنے سارے پیش منظر اورپس منظر کے ساتھ ایک ہوتی ہے لیکن اس حدیث کے معنی ومطلب اورمراد میں اختلاف ہوجاتاہے، یہ اختلاف عہد حاضر کا نہیں ہے بلکہ قدیم دوریعنی عہد صحابہ سے ہی چلاآرہاہے۔
غزوہ احزاب سے فراغت کے بعد بنوقریظہ کی بدعہدی کی بناء پر مسلمانوں کیلئے ضروری تھاکہ ان کو مہلت دیئے بغیر ان کی شرپسندی کا استیصال کیاجائے،اس غرض سے آپ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو جلد ازجلد بنوقریظہ پہنچنے کاحکم دیا۔
عن ابن عمر، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم(صحيح البخاري، الناشر: دار طوق النجاة، باب صلاة الطالب والمطلوب راكبا وإيماء،رقم الحدیث: 946(
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ہم سے غزوہ احزاب سے فراغت کے بعد فرمایا،ضروربالضرور عصر کی نماز بنی قریظہ میں ہی پہنچ کر پڑھی جائے ،عصر کی نماز کاوقت راستے میں ہی آگیاتولوگوں کی رائے منقسم ہوگئی، کچھ لوگوں نے کہاکہ ہم تو عصر کی نماز بنوقریظہ جاکر ہی پڑھیں گے،جب کہ بعض افراد کی رائے یہ تھی کہ عصر کی نماز پڑھ لی جائے اور نبی کریمﷺ کی مرادیہ نہیں تھی (کہ چاہے عصر کا وقت گزرجائے لیکن عصر کی نماز بنوقریظہ ہی میں جاکر پڑھنا بلکہ مراد یہ تھی کہ جلد ازجلد بنوقریظہ پہنچاجائے۔)بعد میں حضورپاکﷺ کواس کی خبر ہوئی توآپ نے کسی سے ناراضگی کا اظہارنہیں فرمایا۔
اس حدیث کی شرح میں سہیلی کے حوالہ سے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
قال السهيلي وغيره في هذا الحديث من الفقه أنه لا يعاب على من أخذ بظاهر حديث أو آية ولا على من استنبط من النص معنى يخصصه وفيه أن كل مختلفين في الفروع من المجتهدين مصيب
(فتح الباري شرح صحيح البخاري،المؤلف: ابن حجر العسقلاني الشافعي،الناشر: دار المعرفة - بيروت، 1379)
سہیلی اوردیگر علماء اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ فائدہ مستنبط ہوتاہے کہ جو ظاہر آیت یاحدیث پر عمل کرے،اس پربھی کوئی نکتہ چینی نہ کی جائے اورجو نص سے ایسے معنی کا استنباط کرے جو اس کو خاص کردے تواس پر بھی کوئی عیب گیری نہ کرے اور اس حدیث سے یہ فائدہ بھی نکلتاہے کہ فروع میں تمام م مجتہدین درست اورحق پر ہیں۔
ایک علمی لطیفہ:
نصوص میں ظاہرپرستی کے علمبردار امام ابن حزم ظاہری ہیں،اور ابن قیم تلمیذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا نصوص اوراس کے تفقہ میں بڑامقام اورمرتبہ ہے،ابن قیم ظاہر تک محدود نہ خود رہتے ہیں اورنہ رہنا پسند کرتے ہیں،اس حدیث کی شرح دونوں نے اپنے اپنے مزاج ومذاق کے اعتبار سے کی ہے،ابن حزم اس حدیث کے تعلق سے لکھتے ہیں:
ولو أننا حاضرون يوم بني قريظة لما صلينا العصر إلا فيها ولو بعد نصف الليل......وأما إن احتج بهذا الحديث من يرى الحق في القولين المختلفين وقال ترك النبي صلى الله عليه وسلم أن يعنف كل واحدة من الطائفتين دليل على أن كل واحدة منهما مصيبة قيل له وبالله التوفيق لا دليل فيه على ما ذكرت ولكنه دليل واضح على أن إحدى الطائفتين مصيبة مأجورة أجرين والأخرى مجتهدة مأجورة أجرا واحدا معذورة في خطئها بالاجتهاد لأنها لم تتعمد المعصية(الإحكام في أصول الأحكام،المؤلف: بن حزم الأندلسي القرطبي الظاهري (المتوفى: 456هـ،الناشر: دار الآفاق الجديدة، بيروت۳؍۲۸)
اوراگرہم بنی قریظہ  کے دن حاضر رہتے تو عصر کی نماز بنوقریظہ میں ہی جاکر پڑھتے خواہ آدھی رات کیوں نہ ہوجاتی............اوراگر کوئی اس حدیث سے یہ دلیل پکڑے کہ حق دونوں مختلف قولوں میں ہوتاہے اور کہے کہ نبی کریمﷺ نے کسی بھی گروہ پر عتاب نہیں فرمایا ،جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں میں سے ہرایک درست تھا تواسے(اللہ کی توفیق سے  )ہماراجواب یہ ہوگا کہ اس حدیث میں تمہاری مزعومہ دلیل نہیں ہے لیکن یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ضرور ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے ایک درست اور دواجروں کا حامل تھا اور دوسری جماعت کوشش کرنے کی وجہ سے ایک اجر کی مستحق اوراجتہاد میں خطاہونے کی وجہ سے معذور تھی کیونکہ ااس نے جان بوجھ کر نافرمانی کا ارادہ نہیں کیاتھا۔
جب کہ اس کے بالمقابل دیکھئے اس کے بالکل ایک سو اسی ڈگری الٹی سمت میں حضرت ابن قیم کیافرمارہے ہیں:
بل الذين صلوها في الطريق في وقتها حازوا قصب السبق، وكانوا أسعد بالفضيلتين، فإنهم بادروا إلى امتثال أمره في الخروج، وبادروا إلى مرضاته في الصلاة في وقتها، ثم بادروا إلى اللحاق بالقوم، فحازوا فضيلة الجهاد، وفضيلة الصلاة في وقتها، وفهموا ما يراد منهم، وكانوا أفقه من الآخرين، ولا سيما تلك الصلاة، فإنها كانت صلاة العصر، وهي الصلاة الوسطى بنص رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الصحيح الصريح الذي لا مدفع له ولا مطعن فيه، ومجيء السنة بالمحافظة عليها، والمبادرة إليها، والتبكير بها، وأن من فاتته فقد وتر أهله وماله، أو قد حبط عمله، فالذي جاء فيها أمر لم يجئ مثله في غيرها، وأما المؤخرون لها، فغايتهم أنهم معذورون، بل مأجورون أجرا واحدا لتمسكهم بظاهر النص، وقصدهم امتثال الأمر، وأما أن يكونوا هم المصيبين في نفس الأمر، ومن بادر إلى الصلاة وإلى الجهاد مخطئا، فحاشا وكلا، والذين صلوا في الطريق، جمعوا بين الأدلة، وحصلوا الفضيلتين، فلهم أجران، والآخرون مأجورون أيضا رضي الله عنهم.
(زاد المعاد في هدي خير العبادالمؤلف: ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ،الناشر: مؤسسة الرسالة، بيروت ۳؍۱۱۹)
بلکہ جن لوگوں نے راستے میں عصر کی نماز پڑھ لی ،انہوں نے میدان مار لیا اور وہ دونوں فضیلتوں کے پانے والے ہوئے ،انہوں نے ایک جانب تو بنوقریظہ کی جانب نکلنے میں جلدی کرکے آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور وقت پر نماز اداکرکے آپ صلی اللہ کی رضا کے حقدار ہوئے اوپھر قوم سے بھی جلدی مل گئےتواس طرح انہوں نے جہاد کی اوروقت پر نماز دونوں کی فضلت پالی اور رسول اللہ ﷺ کے منشاکو سمجھا اور وہ دوسروں سے زیادہ فقیہ تھے،خاص کر عصر کی نماز جوارشاد رسول ﷺ کے مطابق صلوٰۃ وسطیٰ ہےاور ارشاد رسول میں اس کی حفاظت اورنگرانی کی تاکید آئی ہے اور عصر کی نماز وقت آنے پر جلد اداکرنے اوراس کی جانب چلنے کو کہاگیاہے اورجس نے عصر کی نماز فوت کردی تووہ گویاایساہے جس کے اہل وعیال اورمال ودولت لٹ گیاہو ،یاجس کے اعمال برباد ہوگئے ہوں،توعصر کی نماز کے سلسلے میں جوتاکید آئی ہے وہ دوسری نمازوں سے بڑھ کر ہےاور جن لوگوں نے عصر کی نماز تاخیر کے ساتھ پڑھی توان کے سلسلے میں یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ معذور ہیں بلکہ ایک اجر کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ کے فرمان پر لفظ بلفظ عمل کیا اوراس سے ان کاارادہ آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل کا تھا ،لیکن یہ بات کہ عصرکی نماز موخر کرنے والانفس الامر میں بھی درست تھے اورجن لوگوں نے نمازاورجہاد دونوں کی جانب جلدی کی وہ لوگ خطاکار تھے تو اس بات سے خدا کی پناہ اورہرگزنہیں،حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے راستے میں نماز پڑھی انہوں نے دلائل کے درمیان جمع وتطبیق کا راستہ اختیار کرتے ہوئے دونوں فضیلت حاصل کی تو ان کیلئے دوہرااجر ہے اوردوسروں لوگ بھی ماجور ہیں(خطاکے باوجود)
اسی تقابل سے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ نصوص کے فہم میں اختلاف کا ایک بڑاسبب انسان کا اپنامزاج اورذوق بھی ہے،اوریہ ایک حقیقت ہے،اس سے انکار حقیقت کا انکار ہے،اوریہ بات محض ابن حزم ظاہری اور ابن قیم تک محدود نہیں ،ائمہ مجتہدین کے اختلاف میں بھی ایک بڑا سبب مزاج اور ذوق کا بھی اختلاف رہاہے،جس کو بھی فقہ تقابلی کا موقع ملاہے وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتاہے۔
دقت فہم اورباریک بینی
اختلاف فہم کا دوسرا سبب یہ ہے کہ مجتہدین  قرآن وحدیث کے فہم کی گہرائی وگیرائی ،استنباط کی باریکیاں نصوص سے علت کے تعیین میں ایک درجہ کے نہیں ہیں،ظاہر سی بات ہے کہ جب مدارک استنباط واجتہاد میں اختلاف ہے تو نص کے فہم میں بھی اختلاف واقع ہوگا، ایک شخص اپنی باریک بینی سے نص سے ایک مسئلہ مستنبط کرتاہے، دوسرااتناباریک بیں نہیں ہوتا،اسے نہیں لگتاہے کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی مستنبط ہوسکتاہے۔
روایات میں آتاہے کہ جب آیت الیوم اکملت لکم دینکم  نازل ہوئی تواس کو سن کر حضرت ابوبکرؓ رونے لگے، بقیہ صحابہ حیران تھے کہ اس میں رونے کی کیابات ہے بلکہ یہ تومسلمانوں کیلئے خوشبخری کی آیات ہیں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو دیگر صحابہ کرام بھی سمجھ گئے کہ اس سورہ کی آیات میں آنحضرت کے دنیا سےپردہ فرماجانے کے اشارات ہیں،آیات سب نے سنیں لیکن اس سے آنحضرت کے وفات کا اشارہ اولاًحضرت ابوبکرؓ نے سمجھا[12]۔امام رازی لکھتے ہیں کہ یہ حضرت ابوبکرؓ کی دقت فہم اورقرآنی کے ظاہروباطن میں گہرائی وگیرائی اوررسوخ کی واضح مثال ہے[13]۔
سورہ نصر پڑھ کر بیشتر صحابہ کرام اس میں فتح کی خوشخبری سمجھتے تھے لیکن حضرت ابن عباس اورحضرت عمرؓ اس آیت کے اشارہ سے سمجھتے تھے کہ اس میں آنحضرت کے دنیاسے پردہ فرماجانے کا ذکر ہے(ملاحظہ کیجئے تفسیرطبری ،سورہ نصر)
حضرت ابوبکر اورحضرت عمرؓ کا قرآن وحدیث سے لطیف استدلال
بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ فقہاء کرام قرآن کی کسی آیت یاحدیث سے ایسالطیف استدلال کرتے ہیں کہ دوسروں کی نظر وہاں تک نہیں پہنچتی اوربظاہر ایسالگتاہے کہ نص کی مخالفت کی گئی ہے لیکن حقیقت میں ایسانہیں ہوتا ،بلکہ وہ قرآن سے یاحدیث سے ایسالطیف استدلال کرتے ہیں کہ اس تک دوسرو ں کا ذہن نہیں پہنچ پاتالیکن بعد میں دوسرے بھی اس کے ہم نوا ہوجاتے ہیں۔
۱۔اس کی ایک مثال حضرت عمرؓ کا یہ طرز عمل ہے کہ جب عراق فتح ہوا تو یہ سوال درپیش ہوا کہ عراق کی مفتوحہ زمینوں کا کیاکیاجائے؟ اس کو مجاہدین کے درمیان تقسیم کردیاجائے یاپھر اس کومصالح مسلمین میں صرف کرنے کیلئے سابقہ زمین کے مالکوں کے قبضہ میں رہنے دیاجائے اور ان سے خراج وجزیہ وصول کیاجائے،اورمجاہدین کے درمیان منقولہ اموال کی صرف تقسیم کی جائے،بیشتر صحابہؓ کی رائے تھی کہ جو طریقہ ماقبل سے چلاآرہاہے یعنی منقولہ وغیرمنقولہ مال غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کے طریقے کو بدستور باقی رکھاجائے،اوراسی پردورنبوی میں عمل بھی ہوتاتھااوراسی پر دورصدیقی میں بھی عمل ہوا؛لیکن حضرت عمرؓ کی باریک بیں نگاہوں نے اس اندیشہ کو بھانپ لیاکہ اگر وسیع وعریض زمینی جائیداد مجاہدین کے درمیان تقسیم کردیاجائے تو پھر مابعد کے مسلمانوں کیلئے اس میں کیابچے گا اور حکومت کے مصارف کہاں سے پورے ہوں گے؟انہوں نے اس کیلئے قرآن کریم کی آیات سے انتہائی لطیف استدلال کیا اور صحابہ کرام کو اس کے حق میں قائل کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے استدلال سے بیشتر صحابہ کرام مطمئن ہوگئے،اورحضرت عمرؓ نے زمین بدستور ان کے سابقہ مالکوں کے قبضہ میں رہنے دیا اوران پر خراج اور جزیہ عائد کیا۔
(الخراج،للإمام أبویوسف المتوفى : 182هـ،الناشر : المكتبة الأزهرية للتراث،۱؍۳۷)
۲۔ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِأَبِي بَكْرٍ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ، وَنَفْسَهُ، إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ "، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ، وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: فَوَاللهِ، مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ(مسلم شریف،بَابُ الْأَمْرِ بِقِتَالِ النَّاسِ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ،۱؍۵۱)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی اورحضرت ابوبکرؓ آپﷺ کے جانشیں بنےاورعرب میں ارتداد کا سیلاب آیا(ارتداد اس معنی میں زیادہ تھاکہ عرب کے قبائل بدنی عبادات کرنے پر آمادہ تھے لیکن زکوٰۃ دینے پر آمادہ نہ تھے،اورحضرت ابوبکر ایسے لوگوں سے بھی جو زکوٰۃ دینے سے انکار کرتے تھے، ان کے خلاف بھی برسرپیکار ہونے پر آمادہ تھے،صحابہ کرام کی رائے بالخصوص حضرت عمرؓ کی رائے اس باب میں یہ تھی کہ مانعین زکوٰۃ کے ساتھ جہاد نہ کیاجائے اوراپنی بات کی دلیل میں حضرت عمرؓ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاہے ،مجھے لوگوں سے جہاد کاحکم دیاگیاہے یہاں تک کہ وہ کلمہ توحید پڑھ لیں، سوجس نے لاالہ الااللہ کہا،تواس کی جان اوراس کا مال محفوظ ہوگیا ،ہاں مگر اسلام کے حق سے (اس کی جان اورمال لی جاسکتی ہے،مثلاکسی کو قتل کیاتو قصاص میں اس کو قتل کیاجائے گا،اسلام سے مرتد ہوگیاتواس کو ارتداد کی سزا میں قتل کیاجائے گا،اسی طرح کسی کا کچھ مالی نقصان کیاتواس کے نقصان کے بھرپائی اس کے مال سے کی جائے گی)حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:خدا کی قسم جوکوئی بھی نماز اورزکوٰۃ کے درمیان فرق کرے گا ،میں اس سے قتال کروں گا ؛کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے،خدا کی قسم اگرکوئی رسول اللہ ﷺ کے عہد یں ایک رسی بھی دیاکرتاتھا،اب اگردینے سے منع کرے گا تومیں اس سے قتال کروں گا،حضرت عمرؓ فرماتے ہیں :خدا کی قسم ، میں نے جان لیاکہ اس باب میں اللہ نے ابوبکر ؓ کو شرح صدر فرمادیاہےاورمیں نے بھی جان لیاکہ حق وہی ہے جو ابوبکرؓ کہہ رہے ہیں۔
اس حدیث کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو علم تھا،حضرت عمرؓ نے اسے اپنے موقف کی تائید میں پیش کیاکہ مانعین زکوٰۃ کے خلاف جنگ نہ چھیڑی جائے ،حضرت عمرؓ کا استدلال اس حدیث کے ظاہر سے تھااورایساہی استدلال دیگر صحابہ کرام ؓ کا بھی تھا؛لیکن حضرت ابوبکرؓ نے اس حدیث کے معنی کی گہرائی میں اتر کر نہ صر ف حضرت عمرؓ بلکہ دیگر صحابہ سے بھی تسلیم کرالیاکہ اس حدیث میں ان کے موقف کی تائید نہیں بلکہ ابوبکرؓ کے موقف کی تائید ہےاوریہ کہ زکوۃ دینے والے سے بھی اسی طرح جہاد کیاجائے گاجیساکہ منکرین صلوۃ سے کیاجائے گااورزکوۃ سے انکار کرنے والے بھی اسی طرح مرتد ہیں جیساکہ نماز سےا نکار کرنے والے مرتد ہیں۔
۳۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدمسیلمہ کذاب کی قوت وشوکت بہت بڑھ گئی،مسلمانوں اورمسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کے درمیان تصادم میں قراء حضرات کی ایک معتدبہ تعداد شہید ہوگئی،یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ کو خیال ہواکہ اگر قراء حضرات اسی طرح شہید ہوتے رہے توکہیں قرآن کا کوئی حصہ ناپید نہ ہوجائے،لہذا اب قرآن کو ایک جگہ جمع کیاجائے،اس پر حضرت ابوبکرؓ کہاکہ یہ کام آنحضرتﷺ نے نہیں کیاہے توہم کیسے کریں، ان کی مراد یہ تھی کہ جوکام آنحضرت نے نہیں کیاہے،وہ ہمیں بھی نہیں کرناچاہئےاورایساکرنا کہیں آنحضرت ﷺ کے اسوہ کی مخالفت نہ ہو،لیکن حضرت عمر  ؓ برابر حضرت ابوبکرؓ سے فہمائش کرتے رہے ،یہاں تک کہ ان کوبھی اس کام کے خیر ہونے پر شرح صدر ہوگیا۔پھر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زید بن ثابت کو بلابھیجا اوران کے سامنے جمع قرآن کا داعیہ بیان فرمایا،یہ سن کر حضرت زید بن ثابت نےبھی فرمایاکہ جوکام حضورپاک کے عہد میں نہیں ہوا ،وہ اب کیسے کیاجائے؟لیکن حضرت ابوبکرؓ برابر ان سے افہام وتفہیم کرتے رہے ،یہاں تک کہ حضرت زید بن ثابت بھی اس ضرورت کے قائل ہوگئے[14]۔
دیکھئے جمع قرآن کا کام عہد نبویؐ میں نہیں ہوا، حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ کو بھی پہلا اشکال یہی ہواکہ جوکام عہد نبوی میں نہیں ہوا، وہ ہم کیوں کریں؟لیکن حضرت عمرؓ کی نگاہ اس باریکی تک پہنچی کہ جنگ کی چکی اگریوں ہی چلتی رہی اور حالات کا تقاضایہ ہے کہ جنگ ابھی دیر تک چلے گی توایسے میں ضروری ہے کہ قرآن کری کوتحریری طورپر جمع کردیاجائے تاکہ حفاظ کی شہادت سے قرآن پاک پر کسی طرح کا کوئی منفی اثرنہ پڑےاورقرآن محفوظ ہوجائے۔
ائمہ مجتہدین کے واقعات
ایساہی واقعہ مجتہدین ومحدثین کے ساتھ بھی ہواہے، بسااوقات ایک محدث یہ سمجھتاہے کہ فلاں حدیث سے کوئی مسئلہ مستنبط نہیں ہوتا،لیکن اسی حدیث سے ایک مجتہد مسئلہ کا استنباط کرلیتاہے،حضرت اعمش مشہور محدث ہیں، ان کا واقعہ امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف دونوں کے ساتھ مشہور ہے۔
۴۔امام ابوحنیفہ کے ساتھ ان کا واقعہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ سے ایک مرتبہ اعمش نے دریافت کیاکہ فلاں فلاں مسئلہ میں آپ کی رائے کیاہے، امام صاحب نے برجستہ جواب دیا، اعمش ؒ نے دریافت کیاآپ کے قول کی دلیل کیاہے توآپ نے فرمایاکہ آپ نے ہی فلاں فلاں حدیثیں ہم سے روایت کی ہیں، اس کی بنیاد پر ہماراقول یہ ہے،یہ سن کر اعمش کہنے لگے:
’’بس بس!میں نے جواحادیث تم سے سودنوں میں روایت کیں، وہ تم نے ایک پل میں سنادیا ،میرایہ خیال نہیں تھاکہ ان احادیث سے بھی تم کام لے لوگے،اے گروہ فقہاء!آپ کی مثال طبیب کی سی ہے اور ہم لوگ گروہ محدثین پنساری یاکیمسٹ کی طرح ہیں اور آپ کو تو دونوں(حدیث وفقہ) سے حظ وافر عطاہواہے(مناقب الامام ابوحنیفۃ واصحابہ ، لملاعلی قاری،بحوالہ جواہر المضیئۃ ۲؍۴۸۴)
۵۔امام ابویوسف کا واقعہ یہ ہے کہ تنہائی میں ایک مرتبہ اعمش نے امام ابویوسف سے کوئی مسئلہ پوچھا ،امام ابویوسف نے جواب دیا ،اعمش نے دریافت کیاکہ اس مسئلہ کی دلیل کیاہے ،توامام ابویوسف نے فرمایاکہ آپ نے ہی توفلاں حدیث ہم سے روایت کی ہے ،پھر میں نے وہ حدیث سنائی جو اس مسئلہ کی دلیل تھی ،یہ سن کر اعمش کہنے لگے:
’’اے یعقوب!یہ حدیث مجھے تمہاری پیدائش سے پہلے سے یاد ہے لیکن اس کا معنی ومطلب آج میں نے جاناہے‘‘۔(جامع بیان العلم وفضلہ۲؍۱۰۲۹،مطبع دارابن الجوزی)
۶۔امام احمدنے امام شافعیؓ سے ایک مسئلہ دریافت کیا،امام شافعی نے جواب دیا،امام احمد نے دلیل دریافت کی کہ آپ نے جوجواب دیاہے،اس کی دلیل کیاہے؟رسول اللہﷺ کا کوئی ارشاد یاپھر اللہ کے کتاب کی کوئی آیت؟امام شافعی نے ایک حدیث ارشاد فرمائی اور وہ اس حدیث اس مسئلہ کے متعلق واضح تھی(مناقب الشافعی للبیہقی ۲؍۱۵۴،بحوالہ اثرالحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء للشیخ محمد عوامہ ،ص۱۱۴)
روایت سے معلوم ہوتاہے کہ امام احمد کو بھی اس حدیث کا علم تھا لیکن اس حدیث سے یہ استدلال واستنباط ہوتاتھا،اس کی جانب ان کا ذہن نہیں گیاتھا،جب امام شافعی نے ان کو توجہ دلائی توان کو محسوس ہواکہ یہ حدیث تواس مسئلہ میں بالکل واضح اورنص صریح ہے۔
بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ ایک حکم بالکل واضح ہوتاہے لیکن اس حکم کو خاص کرنے والی کوئی دوسری آیت یاحدیث ہوتی ہے،یااس دوسری آیت یاحدیث سے بطور اشارہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پہلی آیت یاحدیث کا حکم خاص ہے،عام نہیں ہے،لیکن اس تک ہرایک کی نگاہ اورنظرنہیں پہنچتی ،اورظاہربینوں کو ایسانظرآتاہے کہ فلاں نے اس حدیث کے عموم پر عمل نہیں کیاہے تواس کا ایساکرنا حدیث کی مخالفت ہے۔
۷۔قرآن کریم کا صاف اورصریح حکم ہے کہ چورکاہاتھ کاٹ دیاجائے ،[15]یہ حکم قرآن میں واضح لفظوں میں آیاہے،لیکن قحط کے زمانے میں حضرت عمرؓ نے چورکے ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف کردی تھی (المصنف، المؤلف: أبو بكر عبد الرزاق بن همام المتوفى: 211هـ،الناشر: المجلس العلمي- الهند 18990)
توکیایہ قرآن وحدیث کی مخالفت ہے؟نہیں بلکہ حضرت عمرؓ نے اپنی خدادادفقاہت وفراست سے یہ سمجھاکہ جہاں چورپر سزا کے نفاذ کی ذمہ داری حکومت کی ہے وہیں ایسے حالات پیداکرناکہ کسی کو چوری کرنے کی نوبت نہ آئے ،یہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر قحط جیسے سنگین حالات ہوں ،جس میں کوئی چوری پر بے اختیار مجبور ہوجائے تواس کی سزا وہ نہیں ہوگی جوعام حالات میں چوری کی سزا کی ہوتی ہے،جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو حرام چیزوں کے کھانے سے منع فرمایاہے،لیکن مجبوراورجان پر بن آنے والوں کیلئے حرام چیز کے کھانے کی بھی اجازت دی ہے[16]،ویسے ہی چوری کرنے پر ہاتھ کاٹاجاناچاہئےلیکن اگرحالات ایسے ہیں کہ ایک شخص کو اپنی یااپنے اہل وعیال کی جان بچانے کیلئے چوری کرنی پڑے اور یہ حالات انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوجائیں تواس میں چوری کی سزا کا نفاذ نہیں ہوگا،یہ حدیث کی مخالفت نہیں ہے بلکہ قرآن وحدیث کے مختلف نصوص سے جس بات کی مجموعی تائید ہوتی ہے یعنی شبہ کی بناء پر حد نافذ نہ کرنا[17]،اضطرار میں حرام حلال ہوجاتاہے ودیگرارشادات رسول کو نگاہ میں رکھتے ہوئے حد کو حالت اضطرار کے ختم ہونے تک ملتوی کرنا اوردفع شبہ کی بناء حد ساقط کرنے کے ارشاد رسول پر عمل آوری ہے۔
(نوٹ:بعض متجددین حضرت عمرؓ کے اس ارشاد سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مصلحت کلی کے مقابلہ میں نص کو معطل کیاجاسکتاہے،ان کا یہ نتیجہ نکالنادرست نہیں ہے،نص کے مقابل دوسری نص تھی کہ شبہات سے حدود ساقط ہوجاتے ہیں اورمجبوری میں حرام چیز کھائی جاسکتی ہے،ان نصوص پر حضرت عمر نے عمل کیا،حضرت عمرؓ نے مصلحت کے مقابلہ میں کسی حد کو ساقط نہیں فرمایااورنہ نص کو معطل کیاہے۔)
۸۔اسی قبیل کا حضرت عمرؓ کا ایک اور واقعہ مولفۃ القلوب کے مد کو بند کرانے کا ہے، نبی ﷺ کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد عینیہ بن حصن اور اقرع بن حابس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور خلیفہ سے مولفۃ القلوب کے مد کی ایک زمین آپ سے طلب کی۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا،فرمان کی پختگی کیلئے انہوں نے دیگر صحابہ کرامؓ کوبھی اس فرمان پر گواہ بنایا اور وہ بن بھی گئے،مگر جب یہ لوگ اس فرمان پر گواہی کے لیے حضرت عمرؓ کے پاس گئے تو انہوں نے پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے پھاڑ دیا، اور ان دونوں سے کہا’ بے شک اللہ کےنبی ﷺ تم لوگوں کو تالیف قلب کے دیا کرتے تھے، مگروہ اس وقت کی بات ہے جب اسلام کمزور تھا، اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کومضبوطی عطافرماکر تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے، اس پر وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت عمرؓ کی  شکایت لے کر آئے، اور آپ پر یہ طعنہ بھی کسا ’’کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ‘‘؟ لیکن نہ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نے اس پر توجہ دی، اور نہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے کوناپسند کیا۔
(فقہ الزکوٰۃ ص ۶۰۰ جلد نمبر۲، بدائع الصنائع ص ۴۵ ج ۲، فقہ السنہ ص ۳۸۹ جلد نمبر۱)
کیاحضرت عمرؓ کا ایساکرنا قرآن کی مخالفت تھی؟نعوذ باللہ ایساہرگز نہیں، حالانکہ بظاہر دیکھئے تو ایک مدشروع سے چلاآرہاتھا، حضورپاک ان لوگوں کو بطور تالیف قلب دیاکرتے تھے،حضرت ابوبکر بھی دیتے تھے، اس مرتبہ بھی دیا ،دیگر صحابہ بھی ان کو دیئے جانے کے مؤید تھے ،مگر حضرت عمرؓ نے اس کی مخالفت کی ،کیونکہ انہوں نے یہ منشامعلوم کرلیاکہ مؤلفۃ القلوب کے مد کی بنیادی حیثیت کیاہے اور کب اس کی ضرورت ہے اورکب نہیں ہے،مولفۃ القلوب کا مد وقت ضرورت کیلئے ہے،جب ضرورت تھی، دیا گیا ،جب ضرورت ہوگی ،دی جائے گی، لیکن جب ضرورت نہیں ہے تو حضرت عمرؓ نے بند کردیا اوربقیہ صحابہ کرامؓ نے بھی ان کی اس رائے سے اتفاق کیا۔



[1] :مقدمہ امام مسلم
[2] : جامع التحصيل ص134، شرح العلل ص212، السنن الأبين ص31، فتح المغيث: ج1 ص157، اختصار علوم الحديث ص56،
[3] : وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ مُنْتَحِلِي الْحَدِيثِ مِنْ أَهْلِ عَصْرِنَا فِي تَصْحِيحِ الْأَسَانِيدِ وَتَسْقِيمِهَا بِقَوْلٍ لَوْ ضَرَبْنَا عَنْ حِكَايَتِهِ، وَذِكْرِ فَسَادِهِ صَفْحًا لَكَانَ رَأْيًا مَتِينًا، وَمَذْهَبًا صَحِيحًا،......وَهَذَا الْقَوْلُ يَرْحَمُكَ اللهُ فِي الطَّعْنِ فِي الْأَسَانِيدِ قَوْلٌ مُخْتَرَعٌ، مُسْتَحْدَثٌ غَيْرُ مَسْبُوقٍ صَاحِبِهِ إِلَيْهِ، وَلَا مُسَاعِدَ لَهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَيْهِ(صحیح مسلم ص۲۸)

[4] : (المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم،مقدمہ صفحہ۲۸)
[5] : وزعم محمد بن جرير الطبري: أن التابعين بأسرهم أجمعوا على قبول المرسل، ولم يأتِ عنهم إنكاره ولا عن أحدِ الأئمة بعدهم إلى رأس المائتين، كأنه يعني أن الشافعي أول من أَبَى قبول المرسل. ( الفصول في الأصول (3/ 149)، والتمهيد (1/ 4)
وقال أبو داود السجستاني في رسالته لأهل مكة ص(32): وأما المراسيل فقد كان أكثر العلماء يحتجون بها فيما مضى؛ مثل سفيان الثوري ومالك والأوزاعي، حتى جاء الشافعي فتكلم في ذلك وتابعه على ذلك أحمد بن حنبل وغيره. اهـ.

[6] : وقال سيّد التّابعين سعيد بن المسيّب: الصّحابي من أقام مع رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلم سنة أو سنتين، وغزا معه غزوة أو غزوتين [لإصابة في تمييز الصحابة،الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت،الطبعة: الأولى1415 هـ

[7] : يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ يَقُولُ: سَمعتُ شُعْبَة يَقُولُ لو كان لي سلطان لأمرت بن إسحاق عَلَى المحدثين. ( الكامل في ضعفاء الرجال،أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ،۷؍۲۶۱)

[8]: قَالَ الشيخ: وحضرت مجلس الفريابي وقد سئل عن حديث لمحمد بن إسحاق وكان يأبي عليهم فلما كرروا عليه قَالَ مُحَمد بن إسحاق فذكر كلمة شنيعة فقال زنديق.( الكامل في ضعفاء الرجال،أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ،۷؍۲۵۵)
[9] : الكامل في ضعفاء الرجال۲؍۳۲۷، الكتب العلمية - بيروت-لبنان

[10]: (المصدرالسابق)
[11] :ومن ظن  بابی حنیفۃاوغیرہ من أئمۃالمسلمین أنھم یتعمدون مخالفۃ الحدیث الصحیح لقیاس أو غیرہ ،فقد أخطا علیھم ،وتکلم إما بظن وإما بھوی۔(مجموع الفتاویٰ:۲۰؍۳۰۴)
[12] : روي أنه لما نزلت الآية على النبي صلى الله عليه وسلم فرح الصحابة وأظهروا السرور إلّا أكابرهم كأبي بكر الصدّيق وغيره فإنهم حزنوا وقالوا: ليس بعد الكمال إلّا الزوال.وكان كما ظنوا فإنه لم يعمر بعدها إلّا أحدا وثمانين يوما أو اثنين وثمانين يوما(غرائب القرآن ورغائب الفرقان،المؤلف: نظام الدين الحسن بن محمد بن حسين القمي النيسابوري (المتوفى: 850هـ،الناشر: دار الكتب العلميه – بيروت)

[13] : فَكَانَ ذَلِكَ دَلِيلًا عَلَى كَمَالِ عِلْمِ الصِّدِّيقِ حَيْثُ وَقَفَ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ عَلَى سِرٍّ لَمْ يَقِفْ عَلَيْهِ غَيْرُهُ.( مفاتيح الغيب = التفسير الكبير،المؤلف فخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ،الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت۱۱؍۲۲۸)

[14] :صحیح بخاری6/183،حدیث نمبر: 4986
[15] :المائدۃ:۳۸
[16] :البقرۃ:173،النحل:115
[17] : سنن الترمذي رقم  الحدیث: 1424 , مستدرک حاكم ، 4 / 384 ،السنن الکبریٰ للبیہقی  8 / 338 ۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔