Pages

Monday 9 October 2017

فہم حدیث میں اختلاف کا جائزہ قسط نمبر۴

ہرحال میں ظاہر حدیث پر عمل کی مضحکہ خیز مثالیں
عمومی خیال یہ ہے کہ ظاہر حدیث پر عمل کرنا حدیث پر عمل ہے اور ظاہر حدیث پر کسی وجہ سے عمل نہ کرنا اس کی مخالفت ہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال اور یہ رائے سطحیت پر مبنی ہے کیوں کہ بسااوقات ظاہر حدیث پر عمل کرنا رسول اللہ کے منشااورمراد کی صریح خلاف ورزی ہوتی ہےاوراسی وجہ سے بسااوقات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اوردیگر فقہاء نے متعدد مقامات پر ظاہر حدیث پر عمل کو ترک کردیاہےاورجن حضرات نے ہرمقام پر ظاہر حدیث پر عمل کیاہے وہ لوگوں کے درمیان ہنسی مذاق کا موضوع بن گئے ہیں، عقل وفہم کوبالائے طاق رکھ کر صرف ظاہر حدیث پر عمل کی دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں،اسے پڑھئے اورسمجھئے کہ محض ظاہر حدیث پر عمل کرنے کی ضد انسان کو کس درجہ حماقت میں مبتلاکردیتی ہے۔
حافظ ابن حزم ظاہری (384 - 456 هـ = 994 - 1064م )ظاہریمسلک کے ترجمان ہیں، ان کی رائے یہ ہے کہ حدیث کے ظاہر پر ہرحال میں عمل کرنا چاہئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے،اس ارشاد کا محض یہ مطلب لینا کہ انسان اگرٹھہرے پانی میں پیشاب کر ے گا تو پانی ناپاک ہوگا اوراگر اس میں پاخانہ کرے گا تو پانی ناپاک نہ ہوگا ،یابراہ راست جمع پانی میں پیشاب کرنے سے ہی پانی نا پاک ہوگا، اگرکسی اور طریقہ سے مثلا کسی برتن میں پیشاب کرلیا اوراس برتن سے پیشاب کو پانی میں انڈیل دیاتو پانی ناپاک نہ ہوگا، عقل وفہم سے کس درجہ بعید بات ہے،معمولی عقل وفہم رکھنے سے بھی مخفی نہیں ،مگر کیاکیجئے کہ لفظ پرستی یاظاہریت کے جوش میں ظاہری فقہ سے وابستگان اسی کے قائل ہیں، اس پر تنقید کرتے ہوئے حافظ ابن دقیق العید کہتے ہیں:
الرَّابِعُ: مِمَّا يُعْلَمُ بُطْلَانُهُ قَطْعًا: مَا ذَهَبَتْ إلَيْهِ الظَّاهِرِيَّةُ الْجَامِدَةُ: مِنْ أَنَّ الْحُكْمَ مَخْصُوصٌ بِالْبَوْلِ فِي الْمَاءِ حَتَّى لَوْ بَالَ فِي كُوزٍ وَصَبَّهُ فِي الْمَاءِ: لَمْ يَضُرَّ عِنْدَهُمْ. أَوْ لَوْ بَالَ خَارِجَ الْمَاءِ فَجَرَى الْبَوْلُ إلَى الْمَاءِ: لَمْ يَضُرَّ عِنْدَهُمْ أَيْضًا. وَالْعِلْمُ الْقَطْعِيُّ حَاصِلٌ بِبُطْلَانِ قَوْلِهِمْ.لِاسْتِوَاءِ الْأَمْرَيْنِ فِي الْحُصُولِ فِي الْمَاءِ وَأَنَّ الْمَقْصُودَ: اجْتِنَابُ مَا وَقَعَتْ فِيهِ النَّجَاسَةُ مِنْ الْمَاءِ.وَلَيْسَ هَذَا مِنْ مَجَالِ الظُّنُونِ، بَلْ هُوَ مَقْطُوعٌ بِهِ.( إحكام الإحكام شرح عمدة الأحكام، الناشر: مطبعة السنة المحمدية،1/73)
 اس حدیث کی شرح میں چوتھی بات کا تعلق اس سے ہے جس کا باطل ہونا یقینی ہے اورجس کی جانب ظاہر پر جمود کرنے والے ظاہریہ گئے ہیں، ان کا کہناہے کہ اس حدیث میں نجاست کا تعلق پانی میں پیشاب کرنے سے ہے، لیکن اگرکوئی کسی گھڑے میں پیشاب کرے اورپھراس پیشاب کو پانی میں ڈالاجائے توپانی ناپاک نہیں ہوگا،یاکسی نے پانی کے گڑھے کے باہر پیشاب کیالیکن پیشاب بہہ کر پانی کے گڑھے میں آگیاتوبھی پانی ناپاک نہیں ہوگا،ظاہریہ کے اس قول کے باطل ہونے پر یقینی علم حاصل ہے کیونکہ چاہے پانی میں پیشاب کیاجائے یاخارج سے پیشاب لاکر پانی میں ڈالاجائے، بات برابر ہے،اورمنشائے رسول تویہ ہے کہ پانی میں پڑنے والی ناپاک چیزوں سے اجتناب کرناہے۔
حکی عن داؤد بن علی الظاہری ان النہی یختص ببول الانسان بنفسہ وان الغائط لیس کالبول وکذا اذابال فی اناء ثم صبہ فی الماء اوبال بقرب الماءوھذاالذی ذھب الیہ خلاف الاجماع وھو من اقبح مانقل عنہ فی الجمود علی الظاہر واللہ اعلم (شرح مسلم 1/138)
داؤد بن علی سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں ممانعت صرف انسان کے پیشاب سے مخصوص ہے اورپاخانہ پیشاب کے حکم میں نہیں ہے(یعنی کوئی اس پانی میں بڑااستنجاء کرے توپانی ناپاک نہیں ہوگا)اوراسی طرح جب کوئی شخص برتن میں پیشاب کرکے پانی میں ڈال دے یاپانی کے قریب پیشاب کرے اور وہ بہہ کر پانی میں چلاجائے توکوئی حرج نہیں ،داؤد ظاہری کا یہ مذہب اجماع کے خلاف ہے اورجمود علی الظاہر کی بدترین مثال ہے۔
اسی طرح ایک حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ اگرکوئی کتابرتن میں منہ ڈال دے تو اس کو تین بار یاسات مرتبہ دھویاجائے(المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم
المؤلف: مسلم بن الحجاج ،الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت،رقم الحدیث :۲۷۹، نصب الراية لأحاديث الهداية مع حاشيته بغية الألمعي في تخريج الزيلعي،الناشر: مؤسسة الريان للطباعة والنشر – بيروت –لبنان،الطبعة: الأولى، 1418هـ/1997م،۱؍۱۳۱)
اس حدیث کی شرح میں بھی ظاہریہ حضرات نے ایسی بات کہی ہے جو عقل فہم سے کافی بعید ہے، چنانچہ ان کا موقف ہے کہ اگرکتانے برتن سے کھایا لیکن اس میں منہ نہیں ڈالا،یااس نے اپناپائوں برتن میں ڈالا ،یااپنی دم برتن میں ڈالی یاکتا پورے کا پورا برتن میں سماگیا،ان صورتوں میں برتن کا دھونا اوراس میں موجود کھانے یاجوبھی چیز ہو،اس کو پھینکنا ضروری نہیں ہوگا بلکہ وہ چیز بدستور حلال ،اورپاک ہوگی۔
فإن أكل الكلب في الإناء ولم يلغ فيه أو أدخل رجله أو ذنبه أو وقع بكله فيه لم يلزم غسل الإناء ولا هرق ما فيه ألبتة وهو حلال طاهر كله كما كان ، وكذلك لوولغ الكلب في بقعة في الأرض أو في يد إنسان أو في ما لا يسمى إناء فلا يلزم غسل شيء من ذلك ولا هرق ما فيه . (المحلی بالاٰثار لابن حزم ،۱؍۱۲۰ ،مسئلہ نمبر۱۲۷، دار الفکر ، بیروت )
اوراگر کتے نے کھایا لیکن برتن میں منہ نہیں ڈالا،یابرتن میں پاؤں رکھا،یااپنی دم ڈالی،یاکتاپورے کا پورابرتن میں سماگیا تواس سے برتن کا دھونا ضروری نہیں ہے اور نہ برتن میں موجود شے کو بہانا(یاپھینکنا)وہ چیز بدستور پوری کی پوری پاک اور حلال ہے،اورایسے ہی اگر کتے نے ایسی جگہ منہ ڈالا جوبرتن نہیں ہے جیسے زمین کے کسی ٹکرے میں ،یاانسان کے ہاتھ میں ،تواس سے نہ اس چیز کو دھونا لازم آتاہے جسے کتے نے چاٹا ہے اورنہ اس میں موجود شے کو بہانا۔
ان دومثالوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہوگی کہ اگر ظاہریت پر مکمل طورپر عمل کیاجائے توبسااوقات یہ حدیث پر عمل نہیں بلکہ ایک قسم کا مذاق اورعقل وفہم سے دشمنی ہے۔

اس بحث سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ائمہ مجتہدین وفقہاء  میں کوئی ایسانہیں ہے جو حدیث پر عمل نہ کرناچاہتاہو یانہ کرتاہو، اختلاف جو کچھ واقع ہواہے،وہ حدیث کی مراد اورمنشاکو سمجھنے میں ہے،کوئی ایک معنی مراد لیتاہے اورکوئی دوسرا معنی مراد لیتاہے، پہلامعنی مراد لینے والوں کو یہ حق قطعاًنہیں پہنچتاکہ وہ دوسرامعنی مرادلینے والوں پر ترک حدیث یاحدیث پر عمل نہ کرنے یاحدیث کی مخالفت کرنے کا الزام لگائیں،ائمہ مجتہدین نے بسااوقات ظاہر حدیث پر عمل نہیں کیاہے،بلکہ حدیث کے مراد ومنشاکوسمجھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر اقوال وارشادات کی روشنی میں اس کی کوئی مناسب تاویل جوکی ہے تویہ بھی حدیث پر عمل کرناہی ہے، حدیث کی مخالفت اورحدیث کو ترک کرنانہیں ہے۔

1 comments:

rahmani نے لکھا ہے کہ
This comment has been removed by the author.

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔