Pages

Wednesday 18 October 2017

امام عیسی بن ابانؒ:حیات وخدمات قسط نمبر۲

تلامذہ:مختلف ذمہ داریوں بالخصوص کارقضاکےنازک فریضہ کی ادائیگی کے ساتھ عیسی بن ابان نے درس وتدریس  کا فریضہ بھی انجام دیا، عیسی بن ابان کی بہتر تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھاکہ آپ کے شاگرد آگے چل کر آسمان علم وفضل کے آفتاب وماہتاب ہوئے، عیسی بن ابان کے چند ممتاز شاگردوں کا یہاں ذکر کیاجاتاہے۔

ہلال بن یحیی الرائے(000 - 245 هـ = 000 - 859 م)آپ کاشمار فقہ حنفی کے ممتاز ترین فقہاء میں ہوتاہے،بصرہ کےقاضی رہے،آپ عیسی بن ابان کے شاگرد ہیں، اورآپ نے ہی اولاًعلم شروط وسجلات میں تصنیف کی۔

ابوخازم:( 000 - 292 هـ = 000 - 905 م) آپ کا نام عبدالحمید اوروالد کانام عبدالعزیز ہے، ابوخازم کنیت ہے، آپ بصرہ کے رہنے والے تھے،شام کوفہ کرخ بغداد وغیرہ میں آپ نے قضاکی ذمہ داریاں انجام دی ،علم وعمل اور زہد ورورع میں آپ کا مقام بہت بلند ہے، امام طحاوی آپ کے شاگرد ہیں۔

بکاربن قتیبہ(182 - 270 هـ = 798 - 884 م)آپ کے علمی کمال بالخصوص فقہ وحدیث کی جامعیت پرمحدثین کااتفاق ہے، سنہ ۲۴۶ہجری میں آپ مصر کے قاضی بنے ،لیکن ابن طولون کے ایک حکم کی تعمیل اپنی اصول پرستی کی بناپر نہ کرسکنے کی وجہ سے قید کردیئے گئے، قید میں بھی حدیث وفقہ کا درس جاری رہا، لوگ مسائل پوچھنے کیلئے آیاکرتے تھے، امام طحاوی آپ کے خاص شاگرد ہیں، دوران قید ہی آپ کا انتقال ہوا، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ(الاعلام للزرکلی۲؍۶۱)

حسن بن سلام السواق:آپ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں، آپ نے اپنے دور کے جلیل القدر محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیا،  آپ حدیث کےمعتبر راوی ہیں،حافظ ذہبی نے آپ کو الامام ،الثقۃ ،المحدث کے گراں قدر الفاظ سے یاد کیاہے،سنہ ۲۷۷ھ میں آپ کا انتقال ہوا(سیراعلام النبلاء)

صورت وسیرت:امام عیسی بن ابان کو اللہ تعالیٰ نے حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت سے بھی نوازاتھا،آپ بڑے حسین وجمیل تھے،ابن سماعہ جوان کے رفیق بھی تھے وہ کہتے ہیں کان عیسی حسن الوجہ(الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ)عیسی بن ابان خوبصورت شخص تھے،آپ صرف حسین ہی نہیں تھے بلکہ عفیف بھی تھے ، دوسرے لفظوں میں کہیں تو حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت سے بھی پورے طورپر متصف تھے،ابن ندیم الفہرست میں لکھتے ہیں ’’ وہ پاک دامن شخص تھے‘‘ وكان عيسى شيخا عفيفا(الفہرست لابن الندیم(

ذہانت وفطانت:، ابوحازم جواپنے دور کے انتہائی نامورقاضی وفقیہ تھے، ان کا قول ہے،میں نے اہل بصرہ کے نوجوانوں میں عیسی بن ابان اوربشربن الولید سے زیادہ ذہین کسی کو نہیں دیکھا،اس سے پتہ چلتاہے کہ وہ ابتداء سے ہی بہت ذہین وفطین تھے،حافظ ذہبی نے بھی ان کے ترجمہ میں ایک جگہ ان کو وکان معدود من الاذکیاء کے الفاظ سے یاد کیاہے یعنی وہ منتخب ترین ذہین لوگوں میں سے ایک تھے۔(تاریخ الاسلام للذہبی۔جلد16،صفحہ312)حافظ ذہبی نے ہی دوسری جگہ ان کوذکاء مفرط(وفور ذہانت)سے متصف کیاہے۔چنانچہ وہ سیر اعلام النبلاء میں انکی اس خصوصیت کاذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں:
وَلَهُ تَصَانِيْفُ وَذَكَاءٌ مُفْرِطٌ،(سیراعلام النبلاء10/440)

فقہ وحدیث میں مقام ومرتبہ :عیسی بن ابان کا دور علم حدیث وفقہ کا زریں دور ہے، آپ نے اپنے عہد کے مشہور اورجلیل القدر محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیاتھا اورخاصی بڑی عمر تک آپ کا تعلق محدثین کے گروہ کےساتھ تھا،اورامام محمد سے رابطہ سے قبل آپ کی دلچسپی کا محور فقط علم حدیث ہی تھا، آپ کو اللہ نے جس ذہانت وفطانت سے نوازاتھا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آپ کا علم حدیث میں بھی ممتاز مقام تھا،یہی وجہ ہے کہ ا بن سماعہ جیسے مشہورمحدث اورفقیہ کا آپ کا متعلق تاثریہ وکان عیسیٰ حسن الحفظ للحدیث (اخبارابی حنیفۃ واصحابہ ۱؍۱۳۲)عیسی بن ابان حدیث کو اچھی طرح یاد رکھنے والے تھے،ابن سماعہ نے جب عیسی بن ابان کاامام محمد سے تعارف کرایاتو یہ کہا:

’’ هَذَا ابْن أَخِيك أبان بن صَدَقَة الْكَاتِب وَمَعَهُ ذكاء وَمَعْرِفَة بِالْحَدِيثِ‘‘(اخبارابی حنیفۃ واصحابہ ۱؍۱۳۲)
یہ آپ کے بھتیجے ابان بن صدقہ ہیں ،یہ ذہین ہیں اور علم حدیث سےگہری واقفیت رکھتے ہیں،پھر اسی واقعہ میں یہ بھی اعتراف ہے کہ امام محمد سے انہوں نے حدیث کے پچیس ابواب کے متعلق اپنے اشکالات دوہرائے،جس سےپتہ چلتاہےکہ ان کو علم حدیث میں کتنا ممتاز مقام حاصل تھا، اگریہ سب اعتراف نہ بھی ہوتا ،تب بھی ان کی کتاب الحجج الصغیر کا جوخلاصہ امام جصاص رازی نے ’’الفصول فی الاصول ‘‘میں پیش کیاہے،اس کو پڑھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ کا علم حدیث میں مقام کتنا بلند اور حدیث وآثار سےاصول وفروع کے استنباط میں آپ کو کتنی مہارت اور کتنا رسوخ تھا، احادیث وآثار سے آپ نےاحناف کے اصول فقہ پر جودادتحقیق دی ہے،اس کو دیکھ کر بے ساختہ یہ کہنا پڑتاہے کہ امام شافعی کے بعد اصول فقہ پر اس طرح سے مجتہدانہ کلام کی نظیر نہیں ملتی ۔

امام محمد  کی شاگردی میں آکر ان کی خفتہ صلاحیتوں کو جلاملی اورجلد ہی انہوں نے فقہ میں درک اورمہارت حاصل کرلیاوررفتہ رفتہ فقہ کے فن شریف میں اتنی مہارت پہنچائی کہ اس دور کے اوربعد کے اجلہ علماء فقہ میں آپ کی معرفت تامہ اوررسوخ کامل کے معترف ہوگئے۔ بلکہ بعض اجلہ علماء نے توان کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیاکہ بصرہ میں ابتداء اسلام سے لے کرعیسی بن ابان کے قاضی ہونے تک ان سے زیادہ بڑافقیہہ بصرہ میں کوئی قاضی نہیں ہوا۔
جلیل القدر علماء کے اعترافات:
 "قال الطحاوي سمعت بكار بن قتيبة يقول سمعت هلال بن يحيي يقول ما في الإسلام قاض أفقه منه يعني عيسى بن أبان في وقته". أخبار أبي حنيفة وأصحابه۱؍۱۵۰) امام طحاوی فرماتے ہیں کہ میں نے بکار بن قتیبہ کو کہتے سناوہ ہلال بن یحیی کا قول نقل کررہے تھے کہ ۔(اس دور میں)مسلمانوں میں عیسی بن ابان سے فقاہت میں بڑھاہوا قاضی کوئی اورنہیں ہے۔
جب کہ قاضی بکار بن قتیبہ خود کہتے ہیں:
" قال الطحاوي وسمعت بكار بن قتيبة يقول كنا لنا قاضيان لا مثل لهما إسماعيل بن حماد وعيسى بن أبان"۔ امام طحاوی کہتے ہیں کہ میں بکار بن قتیبہ سے سناہے کہ ہمارے (فقہاء حنفیہ)دوقاضی ایسے ہیں جن کی کوئی مثال نہیں، ایک اسماعیل بن حماد اوردوسرے عیسی بن ابان۔(الجواہر المضئیۃ۱؍۴۰۱)

خود حافظ حافظ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں ان کے فضل وکمال کااعتراف ’’فقیہ العراق‘‘ کے الفاظ سے کیاہے۔(سیر اعلام النبلاء ۱۰؍۴۴۰)اورتاریخ اسلام میں نام کے ساتھ ’’الفقیہ ‘‘کا لاحقہ لگایاہے(تاریخ الاسلام ۵؍۶۵۱)مشہور شافعی عالم ابواسحاق الشیرازی نے طبقات الفقہاء میں ان کو احناف کاممتاز فقیہ تسلیم کیاہے۔حافظ عبدالقادر القرشی نے ’’الامام الکبیر‘‘کے گراں قدر لقب سے متصف کیاہے(الجواہرالمضئیۃ۱؍۴۰۱)تو حافظ قاسم بن قطلوبغا نے ’’ أحد الأئمة الأعلام‘‘کاگراں قدر لقب تحریر کیاہے۔(تاج التراجم ۱؍۲۲۷)اوراسی کےساتھ ان کے ’’وسعت علم‘‘ کا بھی اعتراف کیاہے(مصدرسابق)مشہور حنفی مورخ ابوالمحاسن یوسف بن تغری بردی لکھتے ہیں: وكان مع كرمه من أعيان الفقهاء (النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة۲؍۲۳۶)سخاوت کے ساتھ ساتھ آپ ممتاز فقہاء میں سےایک تھے،مشہور حنفی امام وعلامہ زاہد الکوثری آپ کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

حاصل کلام یہ کہ عیسی بن ابان علم فقہ کے پہاڑ تھے جس کی بلندی اور عظمت کے سامنے سب سرجھکانے لگے۔)سیرت امام محمدبن الحسن الشیبانی ص۲۰۷(
قضاء:قضاء کی ذمہ داری بہت بھاری اورگرانقدر ذمہ داری ہے اس میں مسائل واحکام کی واقفیت کے ساتھ ساتھ مردم شناسی اورلوگوں کے مزاج سے واقفیت،بیداری مغزی اورکسی کی ظاہری صورت سے متاثرنہ ہونے کی شرطیں شامل ہیں۔عیسی بن ابان ان اوصاف سے متصف تھے لہذاان کی انہی خوبیوں کودیکھتے ہوئے عباسی خلافت میں مامون الرشید کے دور میں قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم نے ان کو مامون کے ساتھ ’’فم الصلح‘‘جاتے وقت عسکرمہدی میں اپنانائب بنایااورپھرواپسی پران کو مستقل طورپر بصرہ کاقاضی بنادیا۔ خطیب بغدادی نےبیان کیاہے کہ ان کو211ہجری میں اسماعیل بن حماد کی معزولی کے بعد بصرہ کاقاضی بنایاگیاتھااورانتقال تک وہ بصرہ کے قاضی رہے۔اس زمانہ میں بصرہ علمی لحاظ سے عالم اسلام کے گنے چنے شہروں میں شمار ہوتاتھا،ایسے میں ان کوبصرہ کاقاضی بنانایہ بتاتاہے کہ قاضی یحیی بن اکثم ان کے علم وفضل سے کتنے متاثر تھے۔
قضاکے باب میں ان کی خاص  صفت یہ تھی کہ وہ اپنے حکموں کا اجراء اورفیصلوں کانفاذ بہت جلد کرایاکرتے تھے۔چنانچہ ابن ندیم ان کی اس خصوصیت کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔"كان فقيها سريع الانفاذ للحكم"وہ فقیہ تھے اورحکم کو جلد نافذ کرتے تھے۔(الفہرست لابن الندیم)،یہی بات قاضی وکیع نے بھی لکھاہے ’’ وكان عيسى سهلاً فقيهاً سريع الانقاذ للأحكام،(اخبارالقضاۃ۲؍۱۷۰)عیسی نرم رو،فقیہ تھے اوراپنے احکام جلد جاری کرایاکرتے تھے۔قاضی وکیع نے لکھاہے کہ بسااوقات وہ فیصلوں کے اجراء میں اس تیزی سے کام لیتے تھے  جس سے بعض حضرات کوشبہ ہوتاتھاکہ احکام کا اتنا اتیز اجراونفاذ قاضیوں کیلئے مناسب ہے یانہیں ہے،قضاکے باب میں آپ کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ جب تک آپ کو اپنے  زیر بحث معاملہ کے فیصلہ پرپورا اطمینان نہ ہوجاتا،فیصلہ صادر نہ کرتے، چاہے اس میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائےاوراگرکوئی اصرار کرتا توصاف فرمادیتے کہ قاضی کو تمہارے مسئلہ کے بارے میں علم نہیں ہے،اگرتم چاہو تو انتظار کرو یاپھر چاہو تو کسی دوسرے کے پاس جاؤ(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ۱؍۱۵۰(
جودوسخا:
x
آپ نے مالدار گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں،یہی وجہ ہے کہ آپ کی پوری زندگی مالداروں کی سی گزری اوراس مالداری کے ساتھ اللہ نے آپ کی فطرت میں سخاوت کا مادہ بدرجہ اتم رکھاتھا،بسااوقات ایسابھی ہے کہ قرضدار قرض ادانہ کرسکا اورقرضخواہ قرضدار کو جیل میں بند کرانے کیلئے لایا اورآنے قرضخواہ کو اس کی رقم اپنی جیب سے اداکردی۔

خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں یہ واقعہ نقل کیاہے کہ ایک شخص نے ان کی عدالت میں محمد بن عبادالمھلبی پر چارسو دینار کادعوی کیا، عیسی بن ابان نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے مقروض ہونے کااعتراف کیا، اس شخص نے قاضی عیسی ابن ابان سے کہاکہ آپ اس کو میرے حق کی وجہ سے قید کردیجئے۔ عیسی بن ابان نے کہاکہ تمہاراحق اس پر واجب ہے؛ لیکن ان کو قید کرنا مناسب نہیں ہے ، اورجہاں تک بات تمہارے چار سو دینارکی ہے تو وہ میں تمہیں اپنے جانب سے ان کے بدلے میں دے دیتاہوں۔(تاریخ بغداد11/480

 خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں قاضی ابوحازم سے نقل کیاہے کہ عیسی بن ابان بہت سخی شخص تھے اوران کا قول تھا کہ اگرمیرے پاس کسی ایسےشخص کو لایاگیاجواپنے مال میں اسی قدرسخاوت سے کام لیتاہے جس قدر سخاوت سے میں لیتاہوں تومیں اس کوسزادوں گایااس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دوں گا۔(تاریخ بغداد/جلد12)حافظ ذہبی بھی سیراعلام النبلاء میں ان کی اس خصوصیت کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ وَفِيْهِ سَخَاءٌ وَجُودٌ زَائِد(تاریخ الاسلام 16/320(

حساب اورفلکیات میں مہارت:فقہاء احناف کاامام محمد کے دور سے ایک خاص وصف یہ رہاہے جس میں وہ دیگر مسالک کےفقہاء سے ممتاز رہے ہیں کہ ان کو علم حساب سےبڑی اچھی اورگہری واقفیت رہی ہے۔امام محمد کو حساب  کےفن میں گہرا رسوخ تھا اورانہوں نے حساب دانی کے اس فن کو اصول سے فروع کی تفریع میں بطور خاص استعمال کیا،دکتور دسوقی اس ضمن میں لکھتے ہیں:
امام محمد جس طرح عربی زبان میں امام تھے،اسی طرح حساب میں بھی آگے تھے، اصول سے فروع اخذکرنے میں ماہر تھے، قاری کیلئے آپ کی کتاب الاصل یاالجامع الکبیر کا مطالعہ کرلینا یہ جاننے کیلئے کافی ہوگا کہ امام محمد کو مسائل پیش کرنے اوران کے احکام بیان کرنے میں گہری مہارت حاصل  تھی،آپ کوحسابی حصوں اوران کی مقداروں پرعلمی قدرت تھی۔(امام محمدبن الحسن الشیبانی اوران کی فقہی خدمات ،ص۱۸۶(

امام محمد کی فقہی تفریعات کی انہی باریکیوں اور دقائق سے امام احمد بن حنبل نے بھی فائدہ اٹھایا،چنانچہ جب ان سے ابراہیم حربی نے سوال کیاکہ یہ باریک  اوردقیق مسائل آپ نے کہاں سے حاصل کیے، توانہوں نے امام محمد کی خدمات کا پورا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: امام محمد کی کتابوں سے(مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه،ص۸۶(

امام محمدسے حساب كا یہ فن ان کے شاگردوں نے بھی سیکھا اوراس میں کمال پیداکیا، چنانچہ عیسی بن ابان کے تذکرہ میں متعدد ان کے معاصرین اورشاگردوں نے اعتراف کیاکہ آپ کو حساب کے فن میں کامل دستگاہ تھی اورنہ صرف حساب کے فن میں بلکہ آپ کو فلکیات میں بھی مہارت حاصل تھی، چنانچہ اسی اعتبار سے آپ اپنے کام کو ترتیب دیاکرتے تھے،آپ کے شاگرد ہلال بن یحیی الرائے کہتےہیں:
هلال الرأي يقول: لقد كتب عيسى بْن أبان سجلات لآل جعفر بْن سليمان، مواريث مناسخة، وحسب حسابها وكتب ذلك في الكتب بأمر يصير به المفتي فصلاً عَن القضاة قَالَ: هلال: هَلْ والله لو سكت عَن ذلك التفصيل لضقت ذرعاً به.( أخبار القضاة،۲؍۱۷۲(
ہلال الرائے کہتے ہیں کہ عیسی بن ابان نے جعفر بن سلیمان کیلئے دستاویزات لکھیں، جس میں وراثت کے احکام اور وراثت کی تقسیم کا پورا حساب تھا اوراس کے ساتھ ایسے قواعد وضوابط بھی بیان کئے تھے جس کی ضرورت مفتی اور قاضی دونوں کو پڑتی ہے ،ہلال کہتے ہیں :خدا کی قسم اگر وہ اتنی تفصیل سے یہ سب نہ لکھتے تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی،عباس بن میمون آپ کی فلکیات دانی کے بارے میں لکھتے ہیں:
عباس بْن ميمون سمعت أهل المسجد والأجرياء يقولون: أحدث عيسى في القضاء شيئاً لم يحدثه أحد لعلمه بحساب الدور.( أخبار القضاة،۲؍۱۷۲)
عباس بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے مسجد والوں اورپڑوسیوں کو کہتے سناکہ عیسی بن ابان نے قضا میں ایک نئی چیز ایجاد کی ہے اور وہ فلکیات  کے علم سے کام لینا،اس کے بعد انہوں نےتفصیل بتائی ہے کہ وہ فلکیات کے علم سے واقفیت کا کس طرح مفید استعمال کرتے تھے۔س میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائےاوراگرکوئی اصرار کرتا توصاف فرمادیتے :
 قاضی کو تمہارے مسئلہ کے بارے میں علم نہیں ہے،اگرتم چاہو تو انتظار کرو یاپھر چاہو تو کسی دوسرے کے پاس جاؤ(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ۱؍۱۵۰)

جودوسخا:آپ نے مالدار گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں،یہی وجہ ہے کہ آپ کی پوری زندگی مالداروں کی سی گزری اوراس مالداری کے ساتھ اللہ نے آپ کی فطرت میں سخاوت کا مادہ بدرجہ اتم رکھاتھا،بسااوقات ایسابھی ہےکہ قرضدار قرض ادانہ کرسکا اورقرضخواہ قرضدار کو جیل میں بند کرانے کیلئے لایا اورآنے قرضخواہ کو اس کی رقم اپنی جیب سے اداکردی۔

خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں یہ واقعہ نقل کیاہے کہ ایک شخص نے ان کی عدالت میں محمد بن عبادالمھلبی پر چارسو دینار کادعوی کیا، عیسی بن ابان نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے مقروض ہونے کااعتراف کیا، اس شخص نے قاضی عیسی ابن ابان سے کہاکہ آپ اس کو میرے حق کی وجہ سے قید کردیجئے۔ عیسی بن ابان نے کہاکہ تمہاراحق اس پر واجب ہے؛ لیکن ان کو قید کرنا مناسب نہیں ہے ، اورجہاں تک بات تمہارے چار سو دینارکی ہے تو وہ میں تمہیں اپنے جانب سے ان کے بدلے میں دے دیتاہوں۔(تاریخ بغداد11/480)

خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں قاضی ابوحازم سے نقل کیاہے کہ عیسی بن ابان بہت سخی شخص تھے اوران کا قول تھا کہ اگرمیرے پاس کسی ایسےشخص کو لایاگیاجواپنے مال میں اسی قدرسخاوت سے کام لیتاہے جس قدر سخاوت سے میں لیتاہوں تومیں اس کوسزادوں گایااس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دوں گا۔(تاریخ بغداد/جلد12)حافظ ذہبی بھی سیراعلام النبلاء میں ان کی اس خصوصیت کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ وَفِيْهِ سَخَاءٌ وَجُودٌ زَائِد(تاریخ الاسلام 16/320)

حساب اورفلکیات میں مہارت:فقہاء احناف کاامام محمد کے دور سے ایک خاص وصف یہ رہاہے جس میں وہ دیگر مسالک کےفقہاء سے ممتاز رہے ہیں کہ ان کو علم حساب سےبڑی اچھی اورگہری واقفیت رہی ہے۔امام محمد کو حساب  کےفن میں گہرا رسوخ تھا اورانہوں نے حساب دانی کے اس فن کو اصول سے فروع کی تفریع میں بطور خاص استعمال کیا،دکتور دسوقی اس ضمن میں لکھتے ہیں:
امام محمد جس طرح عربی زبان میں امام تھے،اسی طرح حساب میں بھی آگے تھے، اصول سے فروع اخذکرنے میں ماہر تھے، قاری کیلئے آپ کی کتاب الاصل یاالجامع الکبیر کا مطالعہ کرلینا یہ جاننے کیلئے کافی ہوگا کہ امام محمد کو مسائل پیش کرنے اوران کے احکام بیان کرنے میں گہری مہارت حاصل  تھی،آپ کوحسابی حصوں اوران کی مقداروں پرعلمی قدرت تھی۔(امام محمدبن الحسن الشیبانی اوران کی فقہی خدمات ،ص۱۸۶)
امام محمد کی فقہی تفریعات کی انہی باریکیوں اور دقائق سے امام احمد بن حنبل نے بھی فائدہ اٹھایا،چنانچہ جب ان سے ابراہیم حربی نے سوال کیاکہ یہ باریک  اوردقیق مسائل آپ نے کہاں سے حاصل کیے، توانہوں نے امام محمد کی خدمات کا پورا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: امام محمد کی کتابوں سے(مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه،ص۸۶)

امام محمدسے حساب كا یہ فن ان کے شاگردوں نے بھی سیکھا اوراس میں کمال پیداکیا، چنانچہ عیسی بن ابان کے تذکرہ میں متعدد ان کے معاصرین اورشاگردوں نے اعتراف کیاکہ آپ کو حساب کے فن میں کامل دستگاہ تھی اورنہ صرف حساب کے فن میں بلکہ آپ کو فلکیات میں بھی مہارت حاصل تھی، چنانچہ اسی اعتبار سے آپ اپنے کام کو ترتیب دیاکرتے تھے،آپ کے شاگرد ہلال بن یحیی الرائے کہتےہیں:
هلال الرأي يقول: لقد كتب عيسى بْن أبان سجلات لآل جعفر بْن سليمان، مواريث مناسخة، وحسب حسابها وكتب ذلك في الكتب بأمر يصير به المفتي فصلاً عَن القضاة قَالَ: هلال: هَلْ والله لو سكت عَن ذلك التفصيل لضقت ذرعاً به.( أخبار القضاة،۲؍۱۷۲)
ہلال الرائے کہتے ہیں کہ عیسی بن ابان نے جعفر بن سلیمان کیلئے دستاویزات لکھیں، جس میں وراثت کے احکام اور وراثت کی تقسیم کا پورا حساب تھا اوراس کے ساتھ ایسے قواعد وضوابط بھی بیان کئے تھے جس کی ضرورت مفتی اور قاضی دونوں کو پڑتی ہے ،ہلال کہتے ہیں :خدا کی قسم اگر وہ اتنی تفصیل سے یہ سب نہ لکھتے تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی۔
عباس بن میمون آپ کی فلکیات دانی کے بارے میں لکھتے ہیں:
عباس بْن ميمون سمعت أهل المسجد والأجرياء يقولون: أحدث عيسى في القضاء شيئاً لم يحدثه أحد لعلمه بحساب الدور.( أخبار القضاة،۲؍۱۷۲)

عباس بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے مسجد والوں اورپڑوسیوں کو کہتے سناکہ عیسی بن ابان نے قضا میں ایک نئی چیز ایجاد کی ہے اور وہ فلکیات  کے علم سے کام لینا،اس کے بعد انہوں نےتفصیل بتائی ہے کہ وہ فلکیات کے علم سے واقفیت کا کس طرح مفید استعمال کرتے تھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔