Pages

Wednesday 18 October 2017

امام عیسی بن ابانؒ:حیات وخدمات قسط نمبر۳

صنیفات وتالیفات: قضاء کی ذمہ داریوں اوردرس وتدریس کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ انہوں نے تصنیف وتالیف کی خدمات بھی انجام دی ہیں،اوربطورخاص اصول فقہ میں گرانقدر اضافہ کیاہے،ان کے تقریباًتمام ہی ترجمہ نگاروں نے ان کے نام  کے ساتھ ’’صاحب التصانیف‘‘کااضافہ کیاہے،جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ تصنیف کے لحاظ سے بہت مشہور تھے اوران کی تصانیف کی خاصی تعداد رہی ہوگی، اصول فقہ کے مختلف موضوعات پر انہوں نے مستقل کتابیں لکھی ہیں،مختلف مصنفین جنہوں نے ان کی تصنیفات کا فہرست دی ہے، ہم اس کا ذکر کرتے ہیں۔
1:        کتاب الحجۃ                
2:       کتاب خبر الواحد
3:       کتاب الجامع
4:       کتاب اثبات القیاس
5:       کتاب اجتہاد الرائے
(الفہرست لابن الندیم)
امام جصاص رازی درج ذیل کتاب کا اضافہ کیاہے:
 6:      الحجج الصغیر                   (الفصول فی الاصول۱؍۱۵۶)
صاحب ہدیۃ العارفین نے درج ذیل کتابوں کا اضافہ کیاہے۔
7:     الحجة الصغيرة في الحديث.(اس کاپتہ نہیں چلاکہ آیا یہ وہی الحجج الصغیر ہے جس کا تذکرہ جصاص رازی نے کیاہے یاپھر الگ  سے کوئی اورکتاب ہے)
8:     كتاب الجامع في الفقه.
9:     كتاب الحج.
10:   كتاب الشهادات.
10:   كتاب العلل.
11:   في الفقه.
(هدية العارفين أسماء المؤلفين وآثار المصنفين۱؍۸۰۶،دار إحياء التراث العربي بيروت – لبنان)
گیارہویں نمبرپر موجود کتاب کانام معجم المولفین میں ’’العلل فی الفقہ ہے اور شاید یہی زیادہ صحیح بھی ہے۔(۸؍۱۸،مکتبۃ المثنی ،بیروت)
12:      الحجج الکبیر فی الرد علی الشافعی القدیم:اس کتاب کا تذکرہ علامہ زاہدالکوثری نے کیاہے۔اس کے علاوہ علامہ لکھتے ہیں :
اس کےعلاوہ عیسی بن ابان نے ایک کتاب حدیث قبول کرنے کی شروط کے سلسلہ میں مریسی اور شافعی کےرد میں بھی لکھی، عیسی بن ابان نے اپنی کتابوں میں وہی اصول بیان کئے امامام محمد سے جن کی تعلیم انہوں نے حاصل کی تھی۔(’’سیرت امام محمد بن الحسن الشیبانی ،اردو ترجمہ بلوغ الامانی فی سیرت الامام محمد بن الحسن الشیبانی،ص ۲۰۷)
کتابوں کے نام سے اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے اپنے دور میں محدثین اوراہل فقہ کے درمیان جن مسائل میں شدید اختلافات تھے ان پر قلم اٹھایاہے۔مثلاکتاب اثبات القیاس،بعض شدت پسند ظاہری محدثین کا موقف تھاکہ قیاس کرناصحیح نہیں اوروہ شرعی دلیل نہیں ہے،اس کی تردید میں یہ کتاب لکھی گئی ہوگی،اسی طرح اس زمانے میں محدثین جہاں ایک طرف خبرواحد کو قطعی اوریقینی دلیل مانتے تھے دوسری جانب معتزلہ اوردیگرگمراہ فرقے خبرواحد کی اہمیت کم کررہے تھے، ایسے عالم میں انہوں نے خبرواحدپر قلم اٹھایااوراحناف کا موقف سامنے رکھا۔
الحجج الصغیر:عیسی ٰ بن ابان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ناپید ہے لیکن خوش قسمتی  سےاب امام جصاص رازی کی ’’الفصول فی الاصول ‘‘طبع ہوکر آگئی ہے، اس کے مطالعہ سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ گویا امام جصاص کی یہ کتاب الحجج الصغیر کی شرح یااس کا بہتر خلاصہ ہے۔تقریباتمام مباحث میں انہوں نے الحجج الصغیر سے استفادہ کیاہے اورالاماشاء اللہ ایک دومقامات کو چھوڑکر ہرجگہ وہ عیسی بن ابان کے ہی موقف کے حامل نظرآتے ہیں،گویااس کتاب کے واسطہ سے براہ راست نہ سہی؛ لیکن بہت قریب سے ہم عیسی بن ابان کے نظریات وخیالات سے واقف ہوسکتے ہیں۔ صاحب کشف الظنون حاجی خلیفہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
وحجج عيسى بن أبان أدق علماً، وأحسن ترتيباً من كتابي المزني.(کشف الظنون ۱؍۶۳۲، مکتبۃ المثنی،بغداد)
اورعیسی بن ابان کی حجج(شاید الصغیر مراد ہو) علم کی باریکی اور ترتیب کے حسن کے لحاظ سے مزنی کی دونوں کتابوں سے بہتر ہے۔اسی کتاب میں عیسی بن ابان نے اپناوہ مشہور نظریہ دوہرایاہے جس کی بنیاد پر احناف آج تک مخالفین کے طعن وتشنیع کے شکار ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ فقیہ نہیں تھے اور ان کی وہ روایت جو قیاس کے خلاف ہوگی رد کردی جائے، راقم الحروف نے اس پر ایک طویل مضمون لکھاہے، جس میں عیسی بن ابانؒ اور بعد کے علماء جنہوں نے عیسی بن ابان کی رائے اختیار کی ہے، ان کے حوالوں سے بتایاہےکہ عیسی بن ابان کی یہ رائے مطلق نہیں ہے بلکہ تین یاچارشرطوں کے ساتھ مقید ہے اوراگران شرائط کالحاظ وخیال رکھاجائے توپھر عیسی بن ابان اوردوسروں کےنظریہ میں اختلاف حقیقی نہیں بلکہ محض لفظی بن کر رہ جاتاہے۔
کتاب الحجج کی تصنیف:اس کی تصنیف کا ایک دلچسپ پس منظر ہے،وہ یہ کہ مامون الرشید کے قریبی رشتہ دار عیسی بن ہارون ہاشمی  نے کچھ احادیث جمع کیں اوران کومامون الرشید کے سامنے پیش کیا اورکہاکہ احناف جوآپ کے دربار میں اعلیٰ مناصب اور عہدوں پر مامور ہیں ،ان کا عمل اورمسلک وموقف ان احادیث کے خلاف ہے اوریہ وہ حدیثیں جس کو ہم دونوں نے اپنے عہد تعلیم میں محدثین کرام سے سناہے ، یہ بات سن کر عیسی بن ابان نے اپنے دربار کے حنفی علماء کو اس کا جواب لکھنے کیلئے کہا؛لیکن انہوں نے جوکچھ لکھا وہ مامون کو پسند نہ آیا،  یہ دیکھ کرعیسی بن ابان نے کتاب الحجج تصنیف کی جس میں انہوں بتایاکہ کسی روایت کو قبول کرنے اورنہ کرنے کا معیار کیاہوناچاہئے اوراس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے مسلک کے دلائل بھی بیان کئے۔ جب مامون الرشید نے یہ کتاب پڑھی توبہت متاثرہوااوربے ساختہ کہنے لگا۔

حسدوا الفتى إذا لم ينالوا سعيه                               فالنّاس أعداءٌ له وخصوم
كضرائر الحسّناء قلن لوجهها                         حسداً وبغياً إنّه لذميم
کسی بھی باصلاحیت ادمی کا جب مقابلہ نہیں کیاجاسکتاتولوگ اس سے حسد کرنے لگتے ہیں اوراس کے دشمن بن جاتے ہیں جیساکہ خوبصورت عورت کی سوتنیں محض جلن میں کہتی ہیں کہ وہ تو بدصورت ہے(بحوالہ تاج التراجم227/تاریخ الاسلام للذہبی 16/320)اس واقعہ کو سب سےز یادہ تفصیل کے ساتھ صیمری نے اخبارابی حنیفۃ واصحابہ میں بیان کی ہے۱؍۱۴۷)
تصنیفات کے باب میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عیسی بن ابان نے ایک کتاب بطور خاص امام شافعی کے رد میں لکھی تھی[1]، اس کتاب کے بارے میں تاریخ بغداد کی روایت کے مطابق داؤد ظاہری اور اخبارالقضاۃ کے مصنف قاضی کا الزام ہے کہ انہوں نےاس کتاب کی تصنیف میں سفیان بن سحبان[2] سے  احادیث کے سلسلے میں مدد لی تھی، قاضی وکیع لکھتے ہیں:وقيل لي إن الأحاديث التي ردها على الشافعي أخذها من كتاب سُفْيَان بْن سحبان(اخبارالقضاۃ لوکیع:۲؍۱۷۱)’’مجھ سے کہاگیاہے کہ وہ احادیث جو عیسی بن ابان نے امام شافعی کے رد میں اپنی کتاب میں لکھی لکھی ہیں، سفیان بن سحبان کی کتاب سے ماخوذ ہے‘‘۔اورداؤد ظاہری سے جب عیسی بن ابان کی کتاب کا جواب دینے کیلئے کہاگیاتوانہوں نے کہاکہ عیسی بن ابان کی اس کتاب کی تصنیف میں  ابن سختان [3]نے مدد کی ہے۔(تاریخ بغداد۶؍۲۱،دارالکتب العلمیۃ)
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عیسی بن ابان پر اس سلسلے میں ابن سحبان سے مدد لینے کا الزام ایک غلط الزام ہے اوراس کی تردید خود عیسی بن ابان نے کی ہے،ایسامحسوس ہوتاہے کہ ان کی زندگی میں ہی یہ چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ ان کی فلاں تصنیف ابن سحبان کی اعانت کا نتیجہ ہے، کسی نے جاکر پوچھ لیاتوانہوں نے بات واضح کردی اوریہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وہ کون سی کتاب ہے:
قال أبو خازم: فسمعت الصريفيني شعيب بن أيوب يقول: قلت لعيسى ابن أبان: هل أعانك على كتابك هذا أحدٌ؟ قال: لا، غير أني كنت أضع المسألة وأناظر فيها سفيان بن سختيان. ( فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه ۱؍۳۶۰، الناشر: المكتبة الإمدادية - مكة المكرمة)
ابوخازم کہتے ہیں ،میں نے شعیب بن ایوب کو یہ کہتے سناکہ میں نے عیسی بن ابان سے پوچھاکہ اس کتاب (کتاب الحجج)کی تصنیف میں کیاکسی نے آپ کی مدد کی ہے، فرمایاکہ نہیں،ہاں اتنی سی بات تھی کہ میں اولا ًمسئلہ کو لکھ لیتاتھا پھر اس کےبعد اس بارے میں سفیان بن سختیان [4]سے مناظرہ کرتاتھا۔

عیسی بن ابان کے ناقدین:
ہرصاحب تصنیف جو مجتہدانہ فکر ونظر کا مالک ہو،ہرمسئلہ میں جمہور کے ساتھ نہیں چلتا بلکہ بسااوقات وہ اپنی راہ الگ بناتاہے بقول غالب’’ہرکہ شد صاحب نظر دین بزرگاں خوش نکرد‘‘امام عیسی بن ابان کے بھی بعض نظریات وخیالات ایسے ہیں جن سے جمہور اتفاق نہیں کرتے اور جن پر ان کے معاصرین اوربعد والوں نے تنقید کی ہے۔ان پر جن لوگوں نے تنقید کی ہے، ان کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
امام طحاوی:آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کی تصنیفات کے ضمن مین ایک کتاب کا ذکرکیاہے جس کا نام ’خطاالکتب‘ ہے،اس میں شاید ایک باب یاکوئی خاص فصل عیسی بن ابان کے رد میں ہے۔‘‘(الجواہر المضئیۃ فی طبقات الحنفیۃ ۱؍۱۰۴)
ابن سیریج :مشہور شافعی فقیہ ہیں، ان کے حالات میں ترجمہ نگاروں نے لکھاہے کہ انہوں نے ایک کتاب عیسی بن ابان کے فقہی آراء کے رد میں لکھی ہےوله رد على عيسى بن أبان العراقي في الفقه(موسوعۃ أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله۱؍۷۶،عالم الکتب للنشر والتوزیع)
اسماعیل بن علی بن اسحاق:آپ نے بھی ایک کتاب عیسی بن ابان کے رد میں لکھی ہے،جس کا نام ہے’’ النقض على مسألة عيسى بن أبان في الاجتهاد، مصنف کا تعلق شیعہ سے فرقہ سے ہے ۔ (لسان المیزان۱؍۴۲۴) کتاب کے نام سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ عیسی بن ابان علیہ الرحمہ کی جوکتاب الاجتہادفی الرائےہے، یہ کتاب اسی کی تردید میں لکھی گئی ہے۔
خلق قرآن کے موقف کاالزام اور حقیقت
امام عیسی بن ابان پر سب سےبڑااورسنگین الزام خلق قران کے عقیدہ کے حامل ہونے کاہے،یہ الزام مشہور شافعی محدث حافظ ابن حجرنے لگایاہے،(اگرچہ حافظ ابن حجر سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے خلق قرآن کے موقف کا الزام لگایاہے لیکن انہوں نے قیل کے ساتھ یہ بات کہی ہے یادیگرصیغہ تمریض کے ساتھ  )حافظ ابن حجر کے تعلق سے اگرچہ متعدد احناف کو شکایت رہی ہے کہ وہ احناف کے ترجمہ میں اس فیاضی اور دریادلی کا مظاہرہ نہیں کرتے جو شوافع کے ساتھ برتتے ہیں، ان شکوہ وشکایات سے قطع نظر خلق قرآن یادوسری کسی بھی جرح کے ثبوت کیلئے کچھ پیمانے ہیں، پہلا پیمانہ یہ ہے کہ جو امام جرح وتعدیل کسی راوی پر کوئی جرح کررہاہے، اس علم جرح وتعدیل کے ماہر تک صحیح سند سے یہ جرح ثابت ہو ،دوسراپیمانہ یامعیار یہ ہے کہ یہ جرح بادلیل ہو، تیسرا معیار یہ ہے کہ جس پر الزام لگایاجارہاہے،اس کا موقف اسی کے الفاظ میں ثابت ہو۔
سب سے پہلے یہ الزام تاریخ بغداد میں خطیب بغداد نے لگایاہے۔چنانچہ خطیب بغدادی تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں۔
ویُحکی عن عیسی انہ کان یذھب الی القول بخلق القران(تاریخ بغداد جلد12صفحہ 482،)عیسی بن ابان سےنقل کیاجاتاہے کہ وہ خلق قران کا عقیدہ رکھتے تھے۔
یہی بات حافظ ذہبی نے بھی تاریخ الاسلام میں دہرایاہے:
 ويُحکی عنه القول بخلق القرآن، أجارنا الله، وهو معدودٌ من الأذكباء(تاریخ الاسلام للذہبی ،صفحہ 312،جلد16) ان سے خلق قران کا قول نقل کیاگیاہے اللہ ہمیں اس سے بچائے،اور وہ ذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔
یہی بات ابن جوزی نے بھی کہی ہے:
ويذكر عنه أنه كَانَ يذهب إِلَى القول بخلق القرآن.( المنتظم في تاريخ الأمم والملوك۱۱؍۶۷،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)اوران کے بارے مین ذکر کیاجاتاہے کہ ان کا موقف خلق قرآن کا تھا۔
واضح رہے کہ خطیب بغدادی نے جس سند سے اس حدیث کو روایت کیاہے اس میں بعض مجہول اور بعض ضعیف راوی ہیں ،جس کی وجہ سے یہ سند اس قابل نہیں کہ اس کی وجہ سے کسی پر خلق قرآن کا سنگین الزام عائد کیاجائے،علاوہ ازیں خطیب نے اس روایت کو نقل کرنے کے باوجود خلق قرآن کے الزام کو صیغہ تمریض کے ساتھ بیان کیاہے،اگریہ سند ان کے نزدیک صحیح ہوتی تو وہ اس کو ضرور بالضرور جزم اورقطعیت کے ساتھ نقل کرتےاوریہی بات حافظ ذہبی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے جن کے رجال کی معرفت اور علم جرح وتعدیل میں گہرائی وگیرائی پر اتفاق ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ دو مورخ یعنی خطیب بغدادی اورحافظ ذہبی اس قول کو تمریض کے صیغہ کے ساتھ نقل کرتے ہیں ،جواس بات کی نشاندہی ہے کہ ان کا خلق قران کے عقیدہ کا حامل ہونا کمزور بات ہے،کوئی پکی بات نہیں ہے،چنانچہ خود حافظ ذہبی نے جب سیر اعلام النبلاء میں ان کا ترجمہ نقل کیا تو عقیدہ خلق قران کے حامل ہونے کی بات نقل نہیں کی ؛کیونکہ وہ پکی بات نہ تھی؛چنانچہ سیراعلام النبلاء میں حافظ ذہبی عیسی بن ابان کے ترجمہ میں محض اتنا ہی نقل کرتے ہیں ۔
فَقِيْهُ العِرَاقِ، تِلْمِيْذُ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ، وَقَاضِي البَصْرَةِ.حَدَّثَ عَنْ: إِسْمَاعِيْلَ بنِ جَعْفَرٍ، وَهُشَيْمٍ، وَيَحْيَى بنِ أَبِي زَائِدَةَ.وَعَنْهُ: الحَسَنُ بنُ سَلاَّمٍ السَّوَّاقُ، وَغَيْرُهُ.وَلَهُ تَصَانِيْفُ وَذَكَاءٌ مُفْرِطٌ، وَفِيْهِ سَخَاءٌ وَجُودٌ زَائِدُ.تُوُفِّيَ: سَنَةَ إِحْدَى وَعِشْرِيْنَ وَمائَتَيْنِ.أَخَذَ عَنْهُ: بَكَّارُ بنُ قُتَيْبَةَ. (سیراعلام النبلاء للذہبی10/441)
عراق کے فقیہ ہیں۔محمد بن الحسن کے شاگرد ہیں اوربصرہ کے قاضی تھے۔انہوں نے اسماعیل بن جعفر،ہشیم، یحیی بن ابی زائدہ سے روایت بیان کی ہے اوران سے حسن بن سلام السواق اوردیگر نے روایت بیان کی ہے۔ان کی متعدد تصانیف ہیں وہ بہت زیادہ ذہین تھے اسی کے ساتھ وہ بہت سخی بھی تھے۔221میں ان کا انتقال ہوا۔
اگرخلق قران کے عقیدہ کی بات پکی ہوتی توکیایہ مناسب تھاکہ حافظ ذہبی اس کا یہاں ذکر نہ کرتے ،ضرورکرتے جیساکہ سیراعلام النبلاء میں انہوں نے دوسرے خلق قران کے عقیدہ کے حاملین کا ذکر کیاہے،پھردیکھئے حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کا صرف ایک سطری جملہ لکھتے ہیں اوراس میں بھی خلق قران کے عقیدہ کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے، بلکہ صاف صاف یہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے ان کی توثیق یاتضعیف کی ہے۔
عيسى بن أبان، الفقيه صاحب محمد بن الحسن ما علمت أحدا ضعفه ولاوثقه
 (ميزان الاعتدال : ج5، ص 374)
خلق قران کاعقیدہ کا حامل ہونابجائے خود ایک جرح ہے اوراس کے حاملین مجروح رواۃ میں شمارہوتے ہیں اورکسی کے مجروح یاضعیف راوی ہونے کیلئے اس کاخلق قران کے عقیدہ کا حامل ہونابھی کافی ہے، اس کے باوجود حافظ ذہبی صاف صاف کہہ رہے کہ ماعلمت احدا ضعفہ ولاوثقہ کیایہ اس کی بات بالواسطہ صراحت نہیں ہے کہ عیسی بن ابان کی جانب خلق قران کا جوعقیدہ منسوب کیاگیاہے ،وہ غلط اوربے بنیاد اورانتہائی کمزور ولچربات ہے،
ان سب  کے برخلاف حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں:
لكنه كان يقول بخلق القرآن ويدعو الناس إليه(لسان الميزان :ابن حجر: 4/390)
عیسی بن ابان نہ صرف خلق قرآن کے قائل تھے بلکہ وہ اس کے داعی بھی تھے۔
حافظ ابن حجر کے علاوہ کسی بھی دوسرے ترجمہ نگارنے جس میں شوافع اوراحناف سبھی شامل ہیں، عیسی بن ابان پر خلق قرآن کے عقیدہ کا الزام نہیں لگایاہے،چاہے وہ مشہور شافعی فقیہ ابواسحاق شیرازی صاحب طبقات الفقہاء ہوں، حافظ عبدالقادر قرشی ہوں، حافظ قاسم بن قطلوبغاہوں۔
اس تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ خلق قرآن کا الزام لگانے کے سلسلے میں حافظ ابن حجر منفرد ہیں اور انہوں نے اپنے دعویٰ کی بھی کوئی دلیل بیان نہیں کی ہے،اور دعویٰ کی جب تک کوئی دلیل نہ ہو ،اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
حافظ ابن حجر نے خلق قران کی بات ضرور نقل کی ہے اوراس کاداعی بھی بتایاہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایاکہ ان کے سامنے ایسی کونسی نئی بات اورنئی دلیل تھی کہ جو چیز خطیب بغدادی اور ذہبی کے یہاں صیغہ تمریض کے ساتھ اداکی جارہی تھی ، وہ یہاں آکر صیغہ جزم میں بدل گئی ،اورجس میں وہ محض ایک عقیدہ کے حامل نظرآتے ہیں ،وہ یہاں آکر داعی میں بدل جاتے ہیں،جتنے ماخذ اس وقت تک ہمارے سامنے ہیں، اس میں سے کسی سے بھی حافظ ابن حجر کے قول کی تائید نہیں ہوتی۔
علم جرح وتعدیل کی رو سے بھی حافظ ابن حجر کی یہ بات اس لئے غیرمعتبر ہے کہ حافظ ابن حجر عیسی بن ابان کے معاصر نہیں، بہت بعد کے ہیں، لازما ان کی یہ بات کسی اور واسطہ اورسند سے منقول ہونی چاہئے،اورسند یاکسی معاصر شخصیت کی شہادت کا اہتمام خود حافظ ابن حجر نے نہیں کیاہے، اس لئے کہاجاسکتاہے کہ علم جرح وتعدیل کی رو سے ان کی یہ بات ناقابل قبول ہے۔
اگرکوئی یہ کہے کہ لسان المیزان میں حافظ ابن حجر کے ذہبی پر بہت سارے تعقبات  اوراضافے ہیں، اس میں سے ایک یہ بھی ہے، اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ جہاں بھی حافظ ابن حجر نے ذہبی کے کسی قول پر اعتراض کیاہے، باحوالہ کیاہے،محض اپنے قول کے طورپر ذکر نہیں کیاہے۔
ہاں جن لوگوں کواصرار ہے کہ وہ خلق قران کے عقیدہ کے حامل اورداعی تھے توانہیں چاہئے کہ وہ ان کی معاصرکسی شخصیت کا کوئی قول یاکوئی سند پیش کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ خلق قرآن کےالزام کی حقیقت پر غورکرنے کیلئے چند باتیں ذہن میں رکھنی ضروری ہے،ایک تویہ کہ یہ عقیدہ خلق قران ایک مبہم لفظ ہے،محض کسی کا یہ کہہ دینا کہ فلاں  خلق قرآن کا قائل تھا،کافی نہیں ہے، یہ واضح ہوناچاہئے کہ وہ کن الفاظ میں خلق قرآن کا قائل تھا، ورنہ تو خلق قرآن کا الزام یا دیگر سنگین الزامات مشہور محدثین پر بھی لگے ہیں،لیکن جب ان کے ہی الفاظ میں ان کےموقف کو جاناگیاتو حقیقت واضح ہوگئی ۔
اس کی واضح مثال خود امام بخاری کا واقعہ ہے جب امام ذہلی سے وابستہ ایک شخص نے امام بخاری سے اس مسئلہ میں پوچھاتوانہوں نے اس مسئلہ کی حقیقت کوصاف اورواضح کرتے ہوئے کہاتھاکہ جوقران کی کی تلاوت ہم کرتے ہیں، وہ افعال مخلوق ہونے کے لحاظ سے مخلوق ہے ورنہ قران کلام اللہ ہونے کے لحاظ سے غیر مخلوق ہے۔ان کے الفاظ ہیں،القران کلام اللہ غیرمخلوق،وافعال العباد مخلوقۃ والامتحان بدعۃ(ہدی الساری494) اگر خلق قرآن کے سلسلے میں ہمارے سامنے امام بخاری کی عبارت نہ ہو محض ذہلی کا بیان اور ابوحاتم وابوزرعہ کی تنقید ہو توکوئی بھی امام بخاری کو خلق قرآن کے عقیدہ کا قائل قراردے دے گا۔دوسری بات یہ بھی ہے خلق قرآن کے معاملہ میں امام احمد بن حنبل کی آزمائش کے بعد امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ اوردیگر محدثین انتہائی شدید ذکی الحس ہوگئے اوراس تعلق سے اگرکوئی ان کے الفاظ سے ہٹ کر کچھ کہتاتو وہ اسے برداشت نہ کرتےاورفورا اس کے متروک اورضعیف ہونے یاخلق قرآن کے قائل ہونے کی بات کہہ دیتے تھے۔تفصیل کیلئے شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تصنیف لطیف وقیم "مسألة خلق القرآن وأثرها في صفوف الرواة والمحدثين وكتب الجرح والتعديل"کی جانب رجوع کریں۔اس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہےاورحوالوں کے ساتھ بتایاہےکہ آگے چل کر اس مسئلہ میں محدثین کے درمیان کس قدر غلو  ہوگیا تھا۔

انتقال:آپ تادم واپسیں بصرہ کے قاضی رہے،آپ کو معزول کرنے کی بعض حضرات نے کوشش کی لیکن  قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم اور ابن ابی داؤد تک کو آپ کو معزول کرنے کی ہمت نہیں ہوئی،محمد بن عبداللہ کلبی کہتے ہیں کہ میں انتقال کے وقت ان کے پاس موجود تھا، انہوں نے مجھ سے کہاکہ ذرا میرے مال ودولت کا شمار تو کردو،میں نے گنا تو بہت زیادہ مال نکلا، پھر انہوں نے فرمایاکہ اب مجھ پر جو قرضے ہیں، ان کو جوڑ کر بتائوکہ کل قرضہ کتنا ہے؟جب میں نے ان کے قرضوں کو جوڑا توپایاکہ یہ ان کی کل مالیت کے قریب ہے، اس پر عیسی بن ابان کہنے لگے ،اسلاف کہاکرتے تھے کہ زندگی مال داروں کی سی جی جیئو اور موت فقیروں کی سی ہونی چاہئے۔(اخبارابی حنیفۃ واصحابہ۱؍۱۴۹)
بالآخر وہ گھڑی آہی گئی جس سے ہرایک کو دوچار ہونا ہے، اورجونہ ٹل سکتی ہے، نہ آگے پیچھے ہوسکتی ہے، ماہ صفر کی ابتدائی تاریخ اور سنہ ۲۲۱ہجری میں علم کا یہ آفتاب غروب ہوگیا۔
امام عیسی بن ابان کاانتقال کب ہوا، اس بارے میں مورخین کے اقوال مختلف ہیں،بعض نے220ہجری قراردیاہے جب کہ بعض نے 221ہجری بتایاہے۔لیکن 221کاقول زیادہ معتبر ہے ،کیونکہ خلیفہ بن خیاط جن کا انتقال عیسی بن ابان کے محض ۱۹-۲۰؍سال بعد ہوا ہے،انہوں نے عیسی بن ابان کی تاریخ وفات ۲۲۱ہجری ہی بتائی ہے،علاوہ ازیں خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں سند کے ساتھ نقل کیاہے کہ ماہ صفر کی ابتداء221ہجری میں ان کاانتقال ہوگیا۔اسی طرح حافظ ذہبی نے تاریخ الاسلام اورسیر اعلام النبلاء میں بھی تاریخ وفات 221ہجری ہی ذکرکیاہے اورحافظ ذہبی چونکہ انتقال کی تاریخ وغیرہ بتانے میں کافی محتاط ہیں اوراس سلسلے میں بہت احتیاط اورتحقیق سے کام لیتے ہیں لہذا ان مورخین کی بات زیادہ معتبر ہے۔




[1] :یہ شاید وہی کتاب ہے جس کانام شیخ زاہد الکوثری ؒ نے الحجج الکبیر فی الرد علی الشافعی القدیم نے لکھاہے۔
[2] :یہ سفیان بن سحبان حنفی ہیں اورامام محمد کےشاگرد ہیں (تاج التراجم لابن قطلوبغا ۱؍۱۷۱)
[3] :تاریخ بغداد میں ایساہی ہے لیکن صحیح ابن سحبان ہے جیساکہ الفہرست لابن الندیم اور تاج التراجم لابن قطلوبغا میں ہے۔
[4] :صحیح سفیان بن سحبان ہے جیساکہ ماقبل میں وضاحت کی جاچکی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔