Pages

Tuesday 31 October 2017

امام یحیی بن سعیدالقطان اورحنفیت


امام یحیی بن سعید القطان اورحنفیت
رحمانی
بزرگوں کی باتیں بڑے گہرے تجربے پر مبنی ہوتی ہیں ان ہی گہرے تجربہ پر مبنی باتوںمیں سے ایک یہ ہے"ایک من علم کیلئے 10/من دماغ یافہم چاہئے"،بات بڑی گہری حقیقت پر مشتمل ہے ،دسترخوان پر کھاناکم وبیش ہوسکتاہے لیکن انسان کوکھانے میں اپنے ہاضمہ کی قوت کا لحاظ کرناہی پڑتاہے،اگرنہ کرے اورجوکچھ دسترخوان پر ہے سب کو داخل شکم کرنے کی کوشش کرے تو اس کی حالت کیاہوگی؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ٹھیک اسی طرح علم کیلئے گہرے فہم کی بھی ضرورت ہے جو علم کوہضم کرسکے، اگرانسان کے پاس علم کو ہضم کرنے کیلئے درکارمقدار میں فہم نہیں ہے تواس کا حال بھی براہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کتب تاریخ وتراجم میں بعض بزرگوں کے ترجمہ میں پاتے ہیں علمہ اکبر من عقلہ یاعلمہ اکثرمن عقلہ وغیرہ ۔

رضامیاں کے ایک مضمون پر ماقبل میں تنقید کی جاچکی ہے،یہ ان کا دوسرامضمون ہے اوراس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ امام جرح وتعدیل یحیی بن سعید القطان حنفی نہیں تھے۔

رضامیاں نے تاریخ بغداد سے ایک روایت پیش کی ہے، اس کی سند کو ضعیف بتایاہے، پھر ابن معین کا ایک قول پیش کیاہے اوراس کی روشنی میں کہاہے کہ سابقہ روایت مکذوب اورموضوع ہے،ہم ماقبل میں عرض کرچکے ہیں کہ کسی بھی چیز کو صحیح تناظر میں دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی مجموعی ہیئت کو پیش نظررکھاجائے ورنہ اس کی مثال اندھوں کے ہاتھی کو ٹٹول کر دیکھنے کی ہوتی ہے۔

امام یحیی بن سعید القطان امام حدیث تھے، اس میں کوئی شک نہیں، فقہ میں بھی ان کامرتبہ بلند تھا،اس میں بھی کوئی شک نہیں، لیکن اس سے حنفی ہونے سے انکار کیسے لازم آسکتاہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے، رضامیاں کہتے ہیں :


کیونکہ کسی سے اس کی گنی چنی چیزیں لینا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ چیزیں اس شخص کے نزدیک صحیح اور حق ہوں اور اس لئے وہ ان کی تحسین کرتا ہے۔ اور یہ جاننے کے لئے کہ کیا چیز صحیح اور حق ہے اور کیا نہیں، اس کو خود اجتہاد کرنا پڑے گا!!لہٰذا امام ابن القطان اپنے خود کے اجتہاد کی بنا پر ہی جانتے تھے ،تھے کہ ابو حنیفہ کی یہ یہ چیزیں صحیح اور اچھی ہیں اور اسی لئے وہ ان کی تحسین کرتے اور انہیں خود چن لیتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اتناعلم توہرمتبحر عالم کو ہوتاہے، امام نووی،امام قدوری،امام ابواسحاق اسفرائنی،امام ابن دقیق العید، ابن قدامہ حنبلی وغیرہ کو کیایہ علم نہیں تھاکہ ان کے ائمہ کے کون سےا قوال دلائل کی روشنی میں صحیح اورکون سے اقوال غلط ہیں،اگراسی کے جاننے کا نام اجتہاد ہے توپھر مبارک ہو، شافعی اور نووی ایک برابر ہوگئے، ابن دقیق العید مالکی اورامام مالک میں کوئی فرق نہ رہا، امام قدروی کا مرتبہ امام ابوحنیفہ کے برابرہوگیا اور ابن قدامہ حنبلی کا درجہ امام احمد بن حنبل کے مساوی ہوگیا،اگرمحض اخذ وانتخاب کا نام اجتہاد ہوتاتو پھر احناف میں اصحاب ترجیح علماء سارے کے سارے امام ابوحنیفہ کے مقام ومرتبہ کے ہوتے، شوافع میں اصحاب وجوہ سارے کے سارے امام شافعی کے مرتبہ کے ہوتے۔

رضامیاں نے تاریخ بغداد سے یہ قول نقل کیاہے
لا نكذب الله، ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله. قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد يذهب في الفتوى إلى قول الكوفيين، ويختار قوله من أقوالهم
اس کی سند پر ان کا اعتراض یہ ہے
اس سند میں پہلی وجہ ضعف ہے"عبد الرحمن بن عمر بن نصر بن محمد الدمشقی الشیبانی"اور یہ شخص متہم (بالکذب والاعتزال ہے۔(دیکھیں، لسان المیزان: ج 5 ص 116(
ہم نے لسان المیزان بھی دیکھا، میزان الاعتدال بھی دیکھااورتاریخ دمشق کی جانب بھی مراجعت کی ،لیکن سب میں ہمیں یہ قول بصیغہ مجہول ہی ملاکہ ان پر معتزلہ ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے اور ابن اسحاق کے لقاء کے سلسلےمیں ان کومتہم کیاگیاہے۔پہلی بات تو یہ ہےکہ اعتزال ہویاقدریاخارجی ہونا،عدالت وضبط میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کے علاوہ نہ جانے کتنے محدث ثابت شدہ قدری تھے، کتنے مرجی تھے، کتنے خارجی تھے ،کتنے ناصبی تھے وغیرذلک؛لیکن اختلاف عقائد کی وجہ سے کسی کی حدیث رد نہیں کی گئی بلکہ اصول حدیث میں یہ بات طے پاگئی کہ اختلاف مسلک وعقیدہ کی وجہ سے راوی کو ترک نہیں کیاجائے گا،اس کے علاوہ ان پر یہ دونوں الزام بصیغہ مجہول منقول ہیں اوریہ معلوم بات ہے کہ مجہول صیغہ سے کسی قول کا ذکر کیاجاناعمومی طورپراس قول کے ضعف کی طرف اشارہ کرتاہے ۔تیسرے ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان پر یہ الزام لگانے والے کون ہیں،معلمی نے تنکیل میں تکلموا فیہ کی جرح اس بنیاد پر رد کردی کہ معلوم نہیں کہ جرح کرنے والے کون ہیں اوریہ جرح جرح مبہم ہے توپھر اس جرح کو یہاں کیسے قبول کیاجاسکتاہے؟

«تكلموا فيه» .أقول: كذا قال ابن يونس ولم يبين من المتكلم ولا ما هو الكلام،(التنکیل2/579)
اس کے بجائے اگررضامیاں یہ اعتراض کرتے کہ ان کی تعدیل کسی سےمنقول نہیں تو شاید یہ کسی درجہ میں کام کی بات ہوتی ۔یہی حال ان کےوالد کاہے تو ایسے راوی جن کی تعدیل نہ ملتی ہو،ان کی وجہ سے روایت ضعیف ہوگی ، من گھڑت اورموضوع کب سے ہونے لگی؟

رضامیاں کا دعویٰ ہے کہ یہ روایت اصل روایت کے مخالف ہے؟ہم لگے ہاتھوں اس کا بھی جائزہ لیتے چلتے ہیں۔رضامیاں یہ روایت نقل کرتے ہیں ۔

لا نكذب اللهربمارأيناالشيءمن رأى أبي حنيفة فاستحسناه فقلنا بهہم اللہ کی تکذیب نہیں کرتے، ہمکبھی کبھارابو حنیفہ کی رائے میں سےکچھ(اچھا) دیکھتے ہیں تو ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس کے مطابق کہتے ہیں۔"(تاریخ ابن معین ج 3 ص 517)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رضامیاں لکھتے ہیں:
اس روایت میں امام القطان کا یہ قول کہ’’ہم ابو حنیفہ کے اکثر اقوال لیتے ہیں‘‘ بھی مذکور نہیں ہے، بلکہ الٹا یہ کہا گیا ہے کہ ہم صرف کبھی کبھار ان کے کچھ اچھے اقوال لیتے ہیں۔اور نہ ہی اس روایت کے آخر میں امام ابن معین کا تبصرہ شامل ہے۔
رضامیاں کااصل استدلال اس قول کے بنیادی کلمہ ’’ربما‘‘پرٹکاہے کہ ربماتقلیل کیلئے آتاہے اوراسی مناسبت سے انہوں نے اس کا ترجمہ کبھی کبھار کیاہے اوراسی بنیاد پر وہ مزید یہ کہتے ہیں:

مزید یہ کہ اس روایت میں امام ابن القطان فرما رہے ہیں کہ اگر "کبھی کبھار" وہ ابو حنیفہ کی رائے میں دلائل کے موافق کوئی اچھی چیز دیکھتے ہیں تو وہ اس کی تحسین کرتے ہیں، نہ کہ یہ کہ وہ ان کےاکثراقواللیتے ہیں۔

توذراہم ربما پر بھی بحث کرلیتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ ربما ہمیشہ تقلیل کےمعنی میں آتاہے یاوہ تکثیر کامعنی بھی دیتاہے۔
ایک نحوی بحث
کلام عرب بلکہ اردو ،ہندی اوردیگرزبانوں میں بھی یہ اسلوب رائج ہےکہ بسااوقات کوئی بات یقینی ہوتی ہے لیکن اس کو کلمہ شک کے ساتھ ذکر کیاجاتاہے ۔مثلاایک لڑکا پڑھائی نہیں کرتاآوارہ گردی کرتاہے آپ اس سے کہتے ہیں ’’اگرتم ایساہی کرتے رہے تو شاید تمہیں ایک دن پچھتاناپرے گا‘‘ہرایک کو معلوم ہے کہ جو پڑھائی کی جگہ آوارہ گردی کرے گا وہ ضرور پچھتائے گا،لیکن اسلوب کلام کی وجہ سے اس کو شاید سے ذکر کیاگیاہے،اس سے کوئی یہ نہیں سمجھتاکہ جوپڑھائی کی جگہ آوارہ گردی کرے گااس کو’’شاید‘‘ پچھتاناپڑے۔

عربی زبان میں رب اورربماکازیادہ تر استعمال تقلیل کےمعنوں میں ہوتاہے لیکن اسے تکثیر کے معنوں میں بھی استعمال کیاجاتارہاہے،قرآن کریم خود اس پر شاہد عدل ہے،ربمایود الذین کفروا،کیاکوئی بھی کہہ سکتاہے کہ ربماکا استعمال یہاں پر تقلیل اورکبھی کبھار کا معنی میں کیاگیاہے؟دیگرماہرین نحو نے بھی اس پر تنبیہ کی ہے کہ رب اورربما تقلیل کے علاوہ تکثیر کیلئے بھی استعمال کیاجاتارہاہے۔

وقد تدخل عليها (ما) فتكفّها عن العمل، فتأتي بعدها المعرِفة، كقولك: (رُبّما زَيْدٌ قائم) .ويأتي بعدها الفعل، كقولك: ( [رُبَّما] 1 يقوم زيد) ، قال اللهُ تعالى: {رُبَّمَا2 يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ} 3.وقد تدلّ على التّكثير(اللمحۃ فی شرح الملحۃ1/259)واختلف النحويون، في معنى رب، على أقوال: الأول: أنها للتقليل. وهو مذهب أكثر النحويين. ونسبه صاحب البسيط،إلى سيبويه. والثاني: أنها للتكثير. نقله صاحب الإفصاح عن صاحب العين، وابن درستويه، وجماعة.(الجنی الدانی فی حروف المعانی1/440)
اتنی گذارش سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رب تقلیل کیلئے تکثیر یعنی کثرت کامعنی بتانے کیلئے بھی استعمال کیاجاتاہے،سوال یہ ہے کہ یحیی بن سعید القطان کے کلام میں "ربما"سے تقلیل مراد ہے یاتکثیر مراد ہے؟

ابن سعید القطان کے ربما سے تقلیل مراد ہے یاتکثیر مراد ہے؟

یحیی بن سعید القطان سےجب امام ابوحنیفہ کے تعلق سے پوچھاگیاتوانہوں نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی فضاعام ہونے کے باوجود اوربصرہ وکوفہ کی علمی چپقلش مشہور ہونے کے باوجود خداکی قسم کھاکر اعتراف کیاکہ ان کو جب کبھی امام ابوحنیفہ کاکوئی قول پسند آتاہے تواسے اختیار کرنے میں دیرنہیں لگاتے۔

رَجُلا سَأَلَ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ فَمَا تَزَيَّنَ عِنْد من كَانَ عِنْده أَن يذكرهُ بغيرما هُوَ عَلَيْهِ وَقَالَ وَالله إِنَّا اذا استحسنا من قَوْله الشئ أَخَذْنَاهُ
خداکی قسم جب ہم اس کےکسی قول کو پسند کرتے ہیں تواس کو اختیار کرتے ہیں
رجُلا سَأَلَ يَحْيَى بن سعيد الْقطَّان عَن أَبى حنيفَة قَالَ مَا نَتَزَيَّنُ عِنْدَ اللَّهِ بِغَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّا وَاللَّهِ إِذَا اسْتَحْسَنَّا من قَوْله الشئ أَخَذْنَا بِهِ (الانتقاء لابن عبدالبرص132اسنادہ حسن)
ان دورایات سے اتنامعلوم ہواکہ امام ابن قطان کو جب امام ابوحنیفہ کی کوئی بات اچھی لگتی تو اسے اختیار کرلیتے تھے ،ایک دوسری معتبر روایت سے معلوم ہوتاہے کہ ابن قطان کے نزدیک امام ابوحنیفہ کی محض ایک بات معیوب تھی اوران کے بعض اقوال پران کو انکار تھا۔

حافظ ابن عبدالبر بسند حسن روایت کرتے ہیں۔

قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ أريتم إِنْ عِبْنَا عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ شَيْئًا وَأَنْكَرْنَا بَعْضَ قَوْلِهِ أَتُرِيدُونَ أَنْ نَتْرُكَ مَا نَسْتَحْسِنُ من قَوْله الذى يوافقنا عَلَيْهِ(الانتقاء لابن عبدالبرص132)
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں تم کیاسمجھتے ہو ،اگرہم ابوحنیفہ کو ایک چیز میں معیوب ٹھہراتےہیں اوران کے بعض اقوال پر انکار کرتے ہیں توکیاتم یہ چاہتے ہیں کہ ان کے جس قول کو ہم بہترسمجھتےہیں اورجس میں وہ ہماری مواقفت کرتے ہیں اس کو بھی ہم چھوڑدیں۔
اس قول میں یحیی بن سعید القطان صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ ان کو امام ابوحنیفہ کے محض بعض اقوال پر اعتراض ہے بیشتر اقوال پر اعتراض نہیں ہے۔

اب آپ صغری کبری ملاکر نتیجہ مرتب کرلیں امام ابوحنیفہ کی جوبات اچھی لگتی تھی اسے اختیار کرتے تھے ،امام ابوحنیفہ کی محض کچھ باتیں ان کے نزدیک قابل اعتراض تھیں ورنہ بقیہ ساری باتیں ان کے نزدیک اچھی تھیں،نتیجہ یہی نکلاناکہ امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتیں اچھی باتیں اوربیشتر باتوں کو وہ اختیار کرتے تھے ۔
ربما کی جگہ" کم" کا لفظ
قرآن کریم کی تفسیر میں سب سے پہلے یہ دیکھاجاتاہے کہ کہیں کسی دوسری آیت میں مزید وضاحت تونہیں ہے،اگرکسی دوسرے مقام پر اللہ نے مزید وضاحت کردی ہے تو اس سے زیادہ معتبر تفسیر کوئی اورنہیں،حتی کہ قران کی وہ قرائتیں کو خبرآحاد سے ثابت ہیں، ان سے بھی تفسیر قرآن کا کام لیاجاتاہے، حدیث کے باب میں بھی یہی دیکھاجاتاہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی ارشاد کی بذات خود توضیح اورتشریح کردی ہے تواس سے معتبر تشریح اورکچھ نہیں،حتی کہ حدیث کی تفسیر میں ضعیف حدیث کو بھی تفسیر وتشریح کیلئے گواراہ کیاجاتاہے کیونکہ بہرحال وہ بھی کسی نہ کسی درجہ میں قیاس آرائی سے بہتر ہے۔
ان نظائر کو ملحوظ رکھتے ہوئےاگرہم یحیی بن سعید القطان کے کلام میں ربما کی تفسیر تقلیل یاتکثیر کے معنوں میں خود ابن قطان کے کلام سے کریں تو شاید اس سے زیادہ بہتر اورکچھ نہ ہوگا۔
اخْبَرَنَا الجوهري، قَالَ: أَخْبَرَنَا عبد العزيز بن جعفر الخرقي، قَالَ: حَدَّثَنَا هيثم بن خلف الدوري، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن منصور بن سيار، قال: سمعت يحيى بن معين، يقول: سمعت يحيى بن سعيد، يقول: كم من شيء حسن قد قاله أَبُو حنيفة. (تاریخ بغداد15/473سندہ حسن)
اس روایت میں بھی "کم"کے لفظ کے ساتھ کہاگیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے بہت سی اچھی باتیں کہی ہیں۔
الانتقاء میں ایک روایت ہے۔
نا مُحَمَّد بن على السامرى المقرى قَالَ نَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِيُّ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ لَا نَكْذِبُ اللَّهَ عَزَّ وَجل كم من شئ حسن قَالَه أَبُو حنيفَة وَرُبمَا استحسنا الشئ مِنْ رَأْيِهِ فَأَخَذْنَا بِهِ، قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَكَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ يَذْهَبُ فِي الْفَتْوَى مَذْهَبَ الْكُوفِيِّينَ
کتنی ہی اچھی باتیں ہیں جو ابوحنیفہ نے کہی ہیں اوربسااوقات ہم کو ان کی رائے اچھی لگتی ہے توہم اس کو اختیار کرتے ہیں۔
اس جملہ میں غورکرنے کی بات یہ ہے کہ پہلے لفظ"کم "کااستعمال ہوا،جو تکثیر کامعنی دیتاہے اورپھر فوراًہی بعد ربما کا استعمال ہوا جو اکثرتقلیل کا معنی دیتاہے،یہاں پر لفظ کم بتارہاہے کہ ان کی اچھی باتیں بہت سی ہیں اور ربما سے اس کے اخذ کرنے کی بات بتارہی ہے کہ ربما بھی یہاں پر تکثیر کے معنی میں ہے تقلیل کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ ماقبل میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جب امام ابوحنیفہ کی کوئی بات ابن قطان کو اچھی لگتی تھی تواسے اختیار کرلیتے تھے لہذا جب ابن قطان کو امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتیں اچھی لگی توانہوں نے بیشتر باتوں کو ہی اختیار کیاہوگا۔

یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے اورضعف کی وجہ یہ ہےکہ مجھ کو محمد بن علی السامری المقری کی پہچان نہیں ہوسکی،لیکن اس کی تائید ابن ابی العوام کی فضائل ابی حنیفہ سے ہوتی ہے۔

حدثني محمد بن أحمد بن حماد قالا: ثنا أحمد بن منصور الرمادي قال: سمعت يحيى بن معين قال: سمعت يحيى بن سعيد القطان يقول: لا نكذب الله، كم من شيء حسن قد قاله أبو حنيفة.(فضائل ابی حنیفۃ واخبارہ 1/200)
اسی روایت کو محض تھوڑے سے فرق کے ساتھ ابن عدی بسند حسن روایت کرتےہیں
سمعتُ ابْن حماد، حَدَّثَنا أَحْمَد بْن مَنْصُور الرمادي سَمِعت يَحْيى بن مَعِين يقول: سَمعتُ يَحْيى بْن سَعِيد القطان لا نكذب اللَّه ربما سمعنا الشيء من رأي أبي حنيفة فاستحسناه فأخذنا بِهِ.قال يَحْيى بْن مَعِين وكان يَحْيى بْن سَعِيد يذهب فِي الفتوى إِلَى مذهب الكوفيين.الکامل فی الضعفاء8/240
ان تمام روایات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ لفظ "ربما"کو"کم"کے معنی میں استعمال کیاگیاہے۔اوراسی کے ساتھ ایک مزید قابل غوربات یہ ہے کہ ان تمام روایات میںیحیی بن معین صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ یحیی بن سعید القطان فتوی دینے میں کوفیوں کے مسلک کی پیروی کرتے تھے اوریہ ظاہر سی بات ہے کہ کوفہ کی سب سے بڑی فقہی شخصیت حضرت امام ابوحنیفہ کی تھی۔
ایک اوردلیل
أخبرنَا عمر بن إِبْرَاهِيم قَالَ أنبأ مكرم قَالَ أنبأ عَليّ بن الْحُسَيْن بن حبَان عَن أَبِيه قَالَ سَمِعت يحيى بن معِين قَالَ مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع بن الْجراح قيل لَهُ وَلَا ابْن الْمُبَارك قَالَ قد كَانَ لإبن الْمُبَارك فضل وَلَكِن مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع كَانَ يسْتَقْبل الْقبْلَة ويحفظ حَدِيثه وَيقوم اللَّيْل ويسرد الصَّوْم ويفتي بقول أبي حنيفَة وَكَانَ قد سمع مِنْهُ شَيْئا كثيرا قَالَ يحيى بن معِين وَكَانَ يحيى بن سعيد الْقطَّان يُفْتِي بقول أبي حنيفَة أَيْضا
 (اخبارابی حنیفۃ واصحابہ 155)
یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ "یفتی "عام ہے،یعنی عام حالات وواقعات میں امام ابوحنیفہ کے قول پر یحیی بن سعید القطان فتویٰ دیاکرتے تھے جس سے مزید اس بات کی تائید ہوتی ہےکہ یحیی بن سعید القطان کے اکثراقوال اختیار کرتے تھے اوراس پر فتوی دیتے تھے۔
اس سند پر وکیع والے تھریڈ میں بحث ہوچکی ہے۔اسے دوبارہ نقل کردیتاہوں۔
’’مضمون نگار کے قول کے مطابق پوری سند درست ہے محض علی کے والد حسین کے حالات نامعلوم ہیں یادوسرے لفظوں میں مجہول ہیں،اورمضمون نگارکے اعتراف کے مطابق اس شخص کے حالات توملتے ہیں مگر عدل وضبط کے تعلق سے کوئی بات نہیں ملتی ،اگرمضمون نگار تھوڑاغورکرتے توان کو معلوم ہوتا کہ بعض محدثین نے اس سند سے احادیث تک کو قبول کیاہے، کیاابن حبان اورابن خزیمہ کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ وہ ایسے راوی کے روایت قبول کرلیتے ہیں جن کے اوپر اورنیچے ثقہ راوی ہو اگرچہ اس درمیان والے راوی کےحالات نامعلوم ہوں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس روایت کی سند ابن حبان اورابن خزیمہ کی شرط کے مطابق درست ہے۔دوسرے انہیں غورکرناچاہئے کہ ایک شخص جتنااپنے والد سے واقف ہوتاہے اتناکوئی دوسرانہیں ہوتا تواگر علی نے جوثقہ ہیں اپنے والد کی روایت کو قبول کیاہے تو اس کی کچھ وجہ ہوگی ‘‘۔
 مزید تائید
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حافظ ذہبی،حافظ ابن کثیر،عبدالرحمن معلمی وغیرہ حنفی نہیں ہیں، احناف کے طرفدار بھی نہیں ہیں،اس کے علاوہ انہوں نے اس روایت کو بلاکسی ردوکد کے ذکر کیاہے۔
حافظ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء ،تاریخ الاسلام اور مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ میں یہ روایت نقل کی ہے۔

وقال يحيى بن سعيد القطان: لا نكذب الله، ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله.
حافظ ابن کثیرنے یہی روایت امام ابوحنیفہ کےتذکرہ میں التکمیل فی الجرح والتعدیل میں نقل کی ہے،اسی روایت کو خلاصۃ تذہیب تھذیب الکمال کے مصنف نے بھی نقل کیاہے،اسی روایت کو حافظ ابن حجرنے تہذیب التہذیب میں نقل کیاہے،اسی روایت کو علامہ صفدی نے الوافی بالوفیات میں نقل کیاہے،اسی روایت کو امام بخاری کی التاریخ الکبیر کے حاشیہ میں معلمی نے امام بخاری کی جرح کے جواب میں نقل کیاہے۔

ان میں سے کوئی حنفی نہیں ہے، بیشترشافعی ہیں ،حنفیوں اورشافعیوں کی چپقلش علم وقضاء کے باب میں مشہور رہی ہے،اس کے باوجود یہ اکابر علماء شوافع بغیر کسی ذہنی تکدر اورانقباض خاطر یہ روایت امام ابوحنیفہ کے مناقب میں نقل کرتے چلے آئے ہیں، کسی ایک کے بھی ذہن میں وہ سب بے سروپااعتراضات آئے نہیں جو محدث فورم کے نوجوان ممبر رضامیاں کے ذہن میں آئے ہیں۔

معلمی کو کون حنفی یاحنفیوں کا طرفدار کہے گا، کوثری کی مخالفت میں وہ بسااوقات دوسری انتہاء پر چلے گئے ہیں، اس کےباوجود ان کا امام ابوحنیفہ کی جانب سے دفاع کرنا اورامام ابوحنیفہ کی اس روایت کو امام بخاری کی جرح کے تاثر کوزائل کرنے کیلئے حاشیہ میں لکھنا کیاثابت کرتاہے؟

اس مضمون سے اتنی باتیں ثابت ہوگئیں
(1)یحیی بن سعید القطان کو امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتیں اچھی لگتی تھی
(2)امام ابوحنیفہ کی جوبات ان کو اچھی لگتی تھی ان کو اختیارکرلیتے تھے
(3)امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتوں کواختیار کرتے تھے اوراس پرفتویٰ دیتے تھے
ایک اعتراض کا جواب
ابن ابی حاتم نے ایک روایت ذکر کی ہے۔
امام علی بن عبد اللہ المدینی روایت کرتے ہیں کہا امام یحیی بن سعید القطان نے فرمایا:
مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة، فلم أسأله عن شيء وكان جاري بالكوفة فما قربته ولا سألته عن شی
 ابو حنیفہ میرے پاس سے گزرے جب میں کوفہ کی ایک مارکیٹ میں تھا، تو میں نے ان سے کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں پوچھا، وہ کوفہ کی طرف جا رہے تھے تو میں نے نہ ان کا ساتھ دیا اور نہ ہی ان سے کچھ بھی پوچھا۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 8 ص 450 واسنادہ صحیح)
اس روایت سے ابن ابی حاتم نےیہ تاثر دینے کی کوشش کی ہےکہ یحیی بن سعید القطان نے امام ابوحنیفہ سے کسی طرح کا کوئی علمی غیرعلمی استفادہ نہیں ،حالانکہ یہ بات سرے سے غلط ہے، یحیی بن معین کایہ قول خود رضامیاں برضاورغبت نقل کرچکے ہیں کہ ابن قطان کبھی کبھار امام ابوحنیفہ کے اقوال پسند آنے پر اختیار کرتے تھے۔
ان صحیح اورحسن روایات سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ابن ابی حاتم کی یہ روایت کہ ابن قطان نے امام ابوحنیفہ سے کوئی استفادہ نہیں کیا،غلط محض ہے۔ابن قطان اپناطرزعمل یہ پیش کررہےہیں کہ جب کبھی ان کو امام ابوحنیفہ کا قول پسند آتاتووہ اسے اختیا رکرنے میں دیر نہ کرتے۔اورامام ابوحنیفہ کی بہت سی باتیں ان کو پسند آئیں ،صرف پسند ہی نہیں آئیں،ان کو اختیار کیااوراس کے مطابق سائلین کو فتویٰ دیا۔

سوال یہ ہےکہ علمی استفادہ اسی کاتونام ہےکہ کسی کے اقوال میں غوروفکر کیاجائے، دلائل کے لحاظ سے اقوال کی جانچ پرکھ کی جائےاورپسندیدہ اقوال کو اختیار کیاجائے، امام محمد بن الحسن اورامام ابویوسف کابھی طرزعمل امام ابوحنیفہ کے اقوال کے ساتھ یہی تھا کہ جوقول پسند آتااسے اختیار کرتے اورجو قول ان کی نگاہ میں دلائل کے لحاظ سے مرجوح ہوتا،اسے اختیار نہ کرتے۔
علی بن المدینی کا قول اوروضاحت
امام علی بن عبد اللہ المدینی اپنے استاد کا مذہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ومن بعد سفيان يحيى بن سعيد القطان كان يذهب مذهب سفيان الثوري وأصحاب عبد الله
اور سفیان (الثوری) کے بعد آئے یحیی بن سعید القطان جنہوں نے سفیان الثوری اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب کے مذہب کی پیروی کی۔"(العلل لابن المدینی: ص 44)
امام یحیی بن سعید القطان کے شاگرد صرف علی بن مدینی نہیں ہیں، بلکہ امام ابن معین بھی ان کے قریبی شاگرد ہیں،اوران کا کہنایہ ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے ،اورخود اپنے استاد کا قول یہ نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی اچھی رائے اختیار کرتے تھے،امام ابوحنیفہ کی بہت سی رائے ان کو اچھی لگتی تھی ،امام ابوحنیفہ کے بعض اقوال ہی ان کو اعتراض تھا،ظاہر سی بات ہے کہ علی بن مدینی کے قول کے مقابلہ میں یحیی بن سعید القطان کا اپناقول زیادہ معتبر ہوگا۔
رضامیاں لکھتے ہیں:

بعض مقلدین کسی امام کے فقیہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس بات سے کرتے ہیں کہ امام ترمذی نے اپنی سنن میں فقہاء کے مذہب بیان کرتے ہوئے ان کا نام لیا ہے یا نہیں! اور اسی بنا پر انہوں نے امام بخاری جو سید الفقہاء ہیں ان کو بھی فقہاء کی لسٹ سے نکالنے کی کوشش کی ہے کیونکہ امام ترمذی نے ان کے اقوال کو بیان نہیں کیا۔ تو عرض ہے کہ امام ترمذی نے سنن الترمذی میں امام یحیی القطان کا نام فقہاء کے درمیان ذکرکیا ہے۔
بعض مقلدین دراصل غیرمقلدین کے پروپیگنڈہ کا جواب دیناچاہتے ہیں اگرامام ابوحنیفہ کی روایت کتب حدیث میں نہیں ہے تو وہ علم حدیث سے نابلد ٹھہرے،اگرامام بخاری کے مسائل کا ذکر خود ان کے شاگرد،دیگرمحدثین اورکتب فقہ پر علماء کی آراء ذکرکرنے والے نہ لکھیں تو اس کو کیاسمجھاجائے؟یہ ہے اصل بات۔
آپ تقصیر الصلاۃ بمنی کے موضوع پر فقہاء کے مذاہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ القَطَّانِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ
اس سے ہمارے موقف پر کوئی اثرنہیں پڑتا کیونکہ ہم پہلے سے یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ امام یحیی بن سعید القطان مجتہد تھے، ہم نےکبھی نہیں کہاکہ وہ مقلد تھے،جیسے امام ابویوسف اورامام محمدمجتہد تھے،امام ابوحنیفہ کےمقلد نہیں تھے پھر بھی دنیا ان کو فقہ حنفی سے وابستہ کرتی ہے،ہم بھی فقہ حنفی سے ان کووابستہ تسلیم کرتے ہیں،باوجود اس کے متعدد مسائل میں انکا امام ابوحنیفہ سے اختلاف واضح ہے،اسی طرح وکیع اور یحیی بن سعید القطان کے معاملہ کوبھی سمجھناچاہئے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔