Pages

Friday 25 March 2022

ہائے ہم ہندوستانی

 

عبیداختررحمانی


ہم  ہندوستانی دنیا بھر میں اپنے برابر کسی کو نہیں سمجھتے اورعلامہ اقبال کو تو ذہن ہندی پر ناز تھااور پھر سے مومن کو درگاہ حق سے عطاہونے کی امید باندھے بیٹھے تھے، لیکن کتب فقہ میں ہندیوں کی مٹی خوب پلید کی گئی ہے، تجنیس کی تحقیق کے دوران ایک مسئلہ نظرآیا:

ولو قال الهنديّ: اى كداى، فقال: اكر من كدايم فامرأتي طالق، طلّقتْ لأن الهندي يقال له في عرفنا ذلك، وإن كان في عرف الفهلويين هذا اسم الحجام.( تجنيس الملتقط)

یہاں عربی کی نسبت سے ’’کدا‘‘ لکھاگیاہے، ورنہ اصل میں یہ ’’گدا‘‘ہے

سوچاکہ یہ صرف صاحب تجنیس کاخیال ہے، بقیہ حضرات کے یہاں ہندیوں کی کچھ عزت ہوگی ، لیکن جب دیکھاتو وہاں بھی ہندیوں کی اچھی مٹی پلید ہوئی ہے، مثلا دیکھئے ، خدمت کے قابل غلام لڑکے کے بارے میں  کتب فقہ میں سب سے بہتر ترکی اورسب سے ادنی ہندی کو بتایاگیاہے،

ولو تزوجها على وصيف صحت التسمية ولها الوسط من ذلك، ولو تزوجها على وصيف أبيض لا شك أنه تصح التسمية؛ لأنها تصح بدون الوصف فإذا وصف أولى، ولها الوصيف الجيد؛ لأن الأبيض عندهم اسم للجيد ثم الجيد عندهم هو الرومي، والوسط السندي، والرديء ‌الهندي(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 2/ 283)

ہم ہندیوں سے بہتر تو سندھی ہی ہوئے، کم سے کم وہ اوسط تو ہوئے، اوریہ بھی حیرت کی بات ہے کہ اوسط میں تو بسااوقات ائمہ کے درمیان اختلاف ہے کسی نے سندی تو کسی نے صیقلانی کو بتایاہے لیکن ہندیوں کے ادنی ہونے میں سبھی کا اتفاق ہے۔

ثُمَّ الْجَيِّدُ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ الرُّومِيُّ وَالْوَسَطُ السِّنْدِيُّ وَالرَّدِيءُ ‌الْهِنْدِيُّ وَعِنْدَهُمَا الْجَيِّدُ التُّرْكِيُّ وَالْوَسَطُ الصَّيْقَلَانِيُّ وَالرَّدِيءُ ‌الْهِنْدِيُّ (الجوهرة النيرة على مختصر القدوري» (2/ 18)

نوٹ:یہ تحریر صرف تفنن یا خوش طبعی کیلئے لکھی گئی ہے،اس پر سنجیدہ بحث ومباحثہ سے پرہیز کیاجائے توبہتر ہے۔

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔